کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟

شیخ اسامہ اور منصور

ابو داود شریف کی ایک روایت جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛

 قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ وَرَاءِ النَّهْرِ يُقَالُ لَهُ : ‌الْحَارِثُ ‌بْنُ ‌حَرَّاثٍ، عَلَى مُقَدِّمَتِهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مَنْصُورٌ، يُوَطِّئُ - أَوْ يُمَكِّنُ - لِآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا مَكَّنَتْ قُرَيْشٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَبَ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُهُ أَوْ قَالَ إِجَابَتُهُ . (أبو داود ۴۲۹۰، ديلمي ۸۹۳۰)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دریا کے اِس پار سے ایک شخص نکلیں گے جنہیں الحارث بن حرّاث کہا جاتا ہوگا۔ ان کے مقدمہ پر ایک شخص ہوگا جنہیں منصور کہا جائے گا۔ وہ آل محمد کے لئے اس طرح راستہ ہموار کریں گے جس طرح قریش نے رسول اللہ کےلئے راستہ ہموار کیا تھا۔ ہر مومن پر آپ کی نصرت کرنا یا آپ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے۔

ماوراء النہر سے مراد وہ علاقہ ہے جو دریائے آمو کے اس پار واقع ہے، اس کے دوسری جانب وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان واقع ہیں، اس علاقے کی ایک طویل شاندار تاریخ ہے، یہیں پر بخاراو سمرقند اور ترمذ وہ شہر ہیں جہاں سے اُمت کو محدثین و فقہا میسر ہوئے۔ یہ مردم خیز خطہ ایک عرصے تک امت کی علمی قیادت کرتا رہا ہے۔

علاماتِ قیامت خصوصا ظہور امام مہدی سے متعلقہ روایات میں عموما شخصیات کو اسی طرح اشاراتی زبان میں ذکر کیا گیا ہے۔ ”الحارث“ شیر کا نام ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہاں اس سے شیر مراد نہیں بلکہ کوئی شخصیت مراد ہے، کیونکہ یہاں حدیث میں اسمِ علم پر الف و لام داخل ہوا ہے یعنی (الحارث) جبکہ اعلام پر الف و لام داخل نہیں ہوتا، اسامہ بھی شیر کا نام ہے، اس لئے متعدد اہلِ علم نے اس سے شیخ اسامہ ہی کو مراد لیا ہے۔ یمن کے ساحلی صوبے ”حضرموت“ جہاں سے شیخ اسامہ کے والد 1930 میں سعودی عرب آئے، وہاں کی طبقاتی تقسیم میں ”حرّاث“ طبقے سے آپ کا تعلق تھا۔”حراث“  کا معنی ہے کسان جو کھیتی باڑی کرتا ہے ، اور حضرمیوں کی لغت میں اسے ”لادن “کہا جاتا ہے، شیخ کا خاندان اصلا حضر موت سے تعلق رکھتا ہے۔

شیخ نے افغان جہاد اور اس کے بعد کے دور میں جہادی تحریک کی قیادت کی۔ آپ کا نظریہ پوری امت کی آزادی اور استحکام کا تھا۔ اور اس مقصد کے لئے آپ نے تحریک کو پورے عالمِ اسلام میں پھیلا دیا تھا، آج جہاں بھی جہاد کی کوئی بہار نظر آتی ہے تو اس کے پیچھے شیخ کی فکر ضرور ہے۔

عموما ہمارے جہاد و تحریک سے تعلق رکھنے والے علما کا خیال ہے کہ حضرت امام مہدی کا دور بہت دور ہے، اور اگر قریب بھی ہو تو وہ اچانک ظاہر ہوں گے، اور ہمیں ان کے ظاہر ہونے سے پہلے کسی کام کی ضرورت نہیں ہے۔ شیخ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لینا تھا کہ آپ حضرت امام مہدی کے لئے راستہ ہموار کریں گے اس لئے آپ سے پہلے ہی آپ کے والد کے دل میں بھی یہ خواہش ڈال دی کہ ایسے افراد تیار کر جائیں جو امام مہدی کا ساتھ دیں۔ والد کا یہ خواب اللہ تعالیٰ نے پورا کر دکھایا اور آپ اُس خواب کی تعبیر بن گئے۔ چنانچہ آپ نے وہ جماعت بنائی جو اس وقت پوری دنیا میں مظلوم امت کا غمخوار و ہمدرد ہے۔ اور ہزار رکاوٹوں کے باوجود آپ کے تیار کردہ افراد اب بھی سرگرم و فعال ہیں۔

منصور جو آپ کے لشکر کا ہراول دستہ ہوں گے، اس سے مراد منصوری خاندان کے افراد ہیں، جو افغانستان میں رہتے ہیں، جیسے سیف اللہ منصور، نصر اللہ منصور وغیرہ۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد امریکیوں کے ساتھ شیخ کا جو پہلا معرکہ تورا بورا اور شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں ہوا تھا، اس میں یہی افراد شیخ کے آگے آگے تھے۔ اس خاندان میں یہ بات بھی معروف ہے کہ ہم حضرت امام مہدی کی نصرت کرنے والے ہیں۔ واللہ اعلم

افغان جہاد کے دور میں نکلنے والے آپ کے جان نثار مجاہدین نے جہاد کو پوری اُمت مسلمہ میں پھیلانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ روس کو بدترین شکست سے دوچار کر دیا، جس کے نتیجے میں 16 ممالک اس کے خونیں پنجے سے آزاد ہوگئے، افغان جہاد کی کامیابی کے بعد کچھ مجاہد تنظیمیں اختلافات کا شکار ہوکر آپس میں الجھ پڑیں اور افغان جہاد کے ثمرات ضائع ہوتے نظر آنے لگے، لیکن دوسری طرف دو عظیم الشان ثمرات اُمت کو حاصل ہوئے جن کا ”الحارث“ اور ”منصور“ سے قریبی تعلق ہے۔ القاعدہ اور عرب تنظیموں کے نوجوان جہاد کی کامیابی کے بعد امت مسلمہ میں احیائے دین اور انقلاب کی آبیاری کرنے لگے، اس جدوجہد کی ابتدا آج سے تین دہائیاں قبل ہوچکی تھی اور انہوں نے بہت کٹھن حالات کا سامنا کیا، لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اُمت مسلمہ خصوصا عالمِ عرب میں جہاد، نفاذِ شریعت اور مغرب کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے شکنجے سے نکلنے کی تحریک شروع ہوئی، اور مجاہدین میں امام مہدی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ ان سب کے پیچھے شیخ اسامہ شہیدکی طویل اور صبر آزما جدوجہد تھی، اگر چہ وہ شہادت کے مقامِ بلند پر فائز ہوگئے لیکن ان کا لگایا ہوا پودا آج تناور درخت بن چکا ہے، اور آزمائش کے ان عجیب حالات میں بھی جہاد زندہ و تابندہ ہے، اور مجاہدین تازہ دم و بلند حوصلہ۔ یہ ان شاء اللہ امام مہدی کو قیادت سونپ کر ہی دم لیں گے۔ 


اس ویڈیو میں شیخ کے ایک بیٹے عمر بن اسامہ یہ بتاتے ہیں کہ  ہمارے دادا مرحوم ہماری یہ ذہن سازی کرتے تھے کہ آپ لوگ ان شاء اللہ امام مہدی کے لشکر میں شامل ہوں گے۔ 




Comments

Popular posts from this blog

کیا حضرت امام مہدی کے ظہور سے پہلے خلافت قائم ہوگی؟