موضوع کی اہمیت

حضرت امام مہدی 

حضرت امام مہدی کے ظہور کا موضوع کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے لگائیں جسے حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں ذکر کی ہے۔ یہ روایت حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے نقل کی ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تک اللہ چاہے گا نبوت تم میں باقی رہے گی، پھر جب اُس کی مشیت ہوگی تو (نبی ﷺ کی رحلت) پر اسے اٹھالے گا، پھر نبوی منہج پر خلافت قائم ہوگی جتنا اللہ چاہے گا، پھر اسے بھی اٹھالے گا، پھر دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے بادشاہی نظام کا دور ہوگا، یہ بھی اتنا عرصہ رہے گا جتنا اللہ چاہے، پھر جب اس کا ارادہ ہوگا تو یہ بھی اٹھالے گا، پھر جبر و ظلم کی حکمرانی کا زمانہ ہوگا، جتنا اللہ چاہے گا، پھر جب وہ چاہے گا تو یہ طرز بھی اٹھالے گا۔ اس کے بعد (ایک بار پھر) منہج نبوت کے مطابق خلافت قائم ہوگی۔ اس کے بعد حضور ﷺ خاموش ہوگئے۔ (مسند احمد)
گویا امت کی تاریخ میں کل پانچ ادوار آئیں گے۔ پہلا دور نبوت کا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ تک رہا، پھر دوسرا دور خلفائے راشدین کا آیا جن کی خلافت نبی ﷺ کی کامل جانشینی پر قائم تھی، اس کے بعد طرزِ حکمرانی تبدیل ہوا، اور موروثیت کی بنیاد پر خلافت جاری رہی، باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہوتا رہا، اور حکمران اقتدار پر ایسے قابض رہے جیسے کسی نے دانتوں سے کوئی چیز مضبوطی سے پکڑی ہو اور آسانی کے ساتھ اسے چھوڑ دینے پر تیار نہ ہو۔ یہ حکمران بھی سب خلفا تھے، بخاری و مسلم کی روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”میرے بعد خلفا ہوں گے اور بہت سارے ہوں گے۔“ انہیں جو بادشاہی نظام کے حکمران کہا گیا وہ اس وجہ سے کہ ان کا طرز بادشاہوں جیسا تھا، ان میں نبوی طرز باقی نہیں رہا۔ البتہ ان میں بھی جو جتنا نبی ﷺ کے مبارک دور کے قریب تھا وہ دور اتنا ہی خیر سے بھر ہوا تھا۔امت کی تاریخ میں یہ دور سب سے طویل عرصے تک رہا، بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کے خلفا نے سینکڑوں سال تک حکومت کی۔
اس کے بعد جب رہی سہی خلافت بھی ختم ہو گئی تو امت جبر و ظلم کے نظام میں داخل ہوگئی، 1924 میں باضابطہ طور پر جب ترکی نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تب سے عالم اسلام جبر کے طرزِ حکمرانی تلے زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے بعد آخر زمانے میں ایک بار پھر خلافت قائم ہوگی، جسے رسول اللہﷺ نے خود منہج نبوت پر قائم خلافت قرار دیا ہے، اور یہ سب سے آخر میں اس لئے ہوگی کہ حدیث کے مطابق اس کے بعد رسول اللہ ﷺ خاموش ہوئے یعنی یہ امت کا آخری دور قرار پایا ورنہ اگر کوئی طرز ہوتا تو اس کا تذکرہ ضرور فرماتے۔
حضرت امام مہدی کے بارے میں مستند روایات میں یہ بات تکرار کے ساتھ بتلائی گئی ہے کہ آپ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی، نظام جبر کے بعد آپ ہی خلافت قائم کریں گے۔ گویا وہ دور جو آج سے تقریبا چودہ سو سال پہلے گزر گیا تھا ایک بار پھر لوٹ آئے گا، اور خلافت کا جو طرز صحابہ کرام کے مبارک دور میں تھا وہ امام مہدی کے ذریعے دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔
امت کو اگر اس وقت عمر بن عبد العزیز جیسا کوئی عادل حکمران ملتا ہے بلکہ بہت بعد کے خلفا جیسے معتصم باللہ، سلطان عبدالحمید جیسے کوئی حاکم آجاتے ہیں تب بھی یہ معمولی تبدیلی نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر مغل بادشاہوں کی طرح کوئی بادشاہ برسرِ اقتدار آجاتا ہے تب بھی اسے بسر و چشم قبول کیا جائے گا۔ لیکن احادیث ہمیں اس سے بھی آگے ایک مثالی طرزِ حکمرانی کی خوشخبری سناتی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی امر ہرگز نہیں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟