کیاحضرت امام مہدی کا تعلق یمن کے ساتھ ہوگا؟

 کیاحضرت امام مہدی کا تعلق یمن کے ساتھ ہوگا؟


حضرت امام مہدی کے متعلق احادیث و روایات میں آپ کے شخصی و جسمانی صفات کے ساتھ آپ کے وطن اور جائے پیدائش کا بھی تذکرہ موجود ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش حجاز (مکہ یا مدینہ) میں ہوگی لیکن آپ کا نسبی اور وطنی تعلق یمن کے ساتھ ہوگا۔

مقام ولادت کیوں خفیہ رکھا گیا؟

البتہ آپ کی ولادت کے بارے میں کوئی مستند اور صحیح و صریح روایت موجود نہیں جس سے معلوم ہو کہ آپ کی ولادت کہاں ہوگی، نعیم بن حماد کی ایک ضعیف روایت میں آپ کی جائے ولادت ”مدینہ“ بتائی گئی ہے۔

المهديُّ مولده بالمدينة من أهل بيت النبي ﷺ و اسمه اسم نبيّ. (نعيم بن حماد في الفتن)

مہدی کا مقامِ ولادت مدینہ ہوگا۔ آپ نبی ﷺ کے اہلِ بیت میں سے ہوں گے، اور آپ کا نام نبی (ﷺ) کے نام پر ہوگا۔ 

جبکہ ابن عساکر کی ایک روایت میں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کو اہلِ مکہ میں سے بتایا گیا ہے۔ 

عن عليّ رضي الله عنه إذا قام قائم أهل مكة جمع الله له أهل المشرق و أهل المغرب. 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ 

يخرج رجل من اهل بيتي في الحرم (نعيم بن حماد في الفتن)

میرے اہلِ بیت میں سے ایک شخص (حضرت امام مہدی) کا حرم سے خروج ہوگا۔ 

اوپر ذکر کردہ روایات ضعیف ہیں جن سے کوئی یقینی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ جن روایات میں آپ کے ”خروج“ کا ذکر ہے اُن کا مطلب آپ کی پیدائش، پرورش اور نشوونما بھی ہوسکتی ہے، اور خروج للجہاد بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ نیز خروج سے غلبہ کا معنی بھی اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح آپ کے بارے میں وارد مختلف روایات میں ”ظہور“ کا لفظ بھی آیا ہے، جس کے بھی متعدد معانی ممکن ہیں۔ 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت امام مہدی کی جائے پیدائش، مقامِ پرورش، اور مقامِ خروج کے بارے میں باہم مختلف روایات کی وجہ یہ ہے کہ خدا کو آپ کی شخصیت ظالم حکمرانوں سے پوشیدہ رکھنا منظور تھا، تاکہ وہ آپ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکیں۔ البتہ آپ کے بعض مخلص ساتھیوں کو آپ کی ولادت اور پرورش کی جگہ کا علم ہوگا۔ 

آپ کی جائے پیدائش جو بھی ہو اور جہاں بھی آپ پلے بڑھے ہوں گے اتنی بات روایات میں متعین ہے کہ آپ کا تعلق یمن کے ساتھ ہوگا۔ 

ما المهديُّ إلا من قريشٍ و ما الخلافةُ إلّا فيهم غيرَ أَنَّ له أصلا و نسبا في اليمن (نعيم بن حماد في كتاب الفتن) 

مہدی قریشی ہی ہوں گے، اور خلافت قریش ہی میں ہوگی۔ البتہ آپ کا وطنی اور نسبی تعلق یمن سے ہوگا۔ 

  حضرت امام مہدی کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ خلافت قائم فرمائیں گے اور یہ خلافت جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی ہے منہجِ نبوت پر قائم ہوگی،  آپ میں وہ تمام صفات موجود ہوں گی جو ایک خلیفۂ راشد کے لئے ضروری ہیں، جن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ خلیفہ قریشی ہوگا، چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: 

الأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ (مسند أحمد)

امامت قریش میں رہے گی۔ اور بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ 

لَا يَزَالُ هٰذَا الأَمْرُ فِيْ قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنْهُمْ اثْنَانِ

یہ خلافت قریش ہی میں رہے گی، بے شک ان میں دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔ 

اس لئے فقہا و متکلمین کی اکثریت کے نزدیک خلیفہ کا قریشی ہونا شرط ہے، اور حضرت امام مہدی میں یہ شرط موجود ہوگی۔ اگر چہ آپ کا وطنی تعلق یمن سے ہوگا۔ 

کرعہ

یہ بھی روایات میں صاف بتلا دیا گیا ہے کہ آپ یمن میں متعین طور پر کس جگہ کے ہوں گے۔ 

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ : 

يخْرُجُ المهديُّ من قرية باليمن يُقالُ لها: كرعة، و علیٰ رأسه عِمامة (غمامة) فيها مناد ينادي: ألا إَنَّ هذا المهديَّ فاتَّبِعُوه. (مسند الشاميين) والحديث أخرجه أبوبكر المقرئ في معجم شيوخه)

مہدی یمن کی ایک بستی سے نکلیں گے جسے ”کرعہ“ کہا جائے گا۔ آپ کے سر پر پگڑی ہوگی (یا بادل) ہوگا جس سے آواز آئے گی کہ : سنو! یہ مہدی ہیں ان کی پیروی کریں۔ 

  کرعہ یمن کے مغربی ساحلی صوبے حُدیدہ کے جنوب میں، بیت الفقیہ صوبے کے مشرق میں ریمہ کے حدود کی ابتدا میں واقع ہے۔ دو پہاڑوں (بنی القحوی اور جحزان) کے درمیان گھاٹی میں یہ علاقہ واقع ہے۔ یہ بستی متعدد چھوٹی چھوٹی بستیوں کا مجموعہ ہے جن میں ظہرہ، مکراع، جروہ، ہاجر اور مرحلہ شامل ہیں۔  سیاسی لحاظ سے یہ صوبہ ریمہ کے زیرِ انتظام ہے، جبکہ جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے یہ تہامہ کے تابع ہے۔ تہامہ یمن کے انتہائی مشرقی حدود پر واقع ہے۔ اس کے رہنے والے تہامی لہجہ بولتے ہیں۔ 

تہامہ خلیج عقبہ سے آبنائے باب المندب تک پھیلا ہوا ساحلی علاقہ کہلاتا ہے، جس میں جدہ، یمنی شہر حُدیدہ، ریمہ آتے ہیں۔ کرعہ، ریمہ صوبے کی ایک بستی  ہے۔ 

حِمیَر سے حمیَر تک

عَنْ ذِي مِخْمَرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  كَانَ هَذَا الْأَمْرُ فِي حِمْيَرَ، فَنَزَعَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُمْ، فَجَعَلَهُ فِي قُرَيْشٍ وسيعود إليهم. (مسند أحمد، والطبراني في الكبير، مسند الشاميين)

حکومت و سلطنت قبیلۂ حِمیر میں تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے چھین لی اور قریش کو عطا فرمائی۔ اور عنقریب ایک بار پھر ان کی جانب لوٹ آئے گی۔ 

اسلام سے پہلے یمن کے حکمران تبابعہ کہلاتے ہیں، ان کے بادشاہ کو تُبَّع کہا جاتا تھا، یہ ان حِمیَری بادشاہوں کا لقب تھا جنہوں نے یمن کے مغربی حصے کو دارالسلطنت قرار دے کر عرب، شام، عراق اور افریقہ کے بعض حصوں پر حکومت کی۔ عربوں میں قبل از اسلام حِمیَر کی حکومت و سلطنت کے بارے میں اتنے اشعار منقول ہیں جو حدِّ تواتر تک پہنچتے ہیں۔ لیکن پھر اسلام آیا تو خلافت و حکومت حمیَر سے(جو قحطانی عرب تھے)  قریش کی جانب منتقل ہوئی (جو عدنانی عرب تھے) اور سینکڑوں سال تک قریشی ہی خلیفہ رہے، بنوامیہ اور بنوعباس دونوں قریش تھے۔ پھر ایک مدت تک ترک بنو عثمان خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ 

لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد اس وقت مسلم امت کسیبھی مرکزی طاقت کے تحت نہیں ہیں بلکہ مختلف ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اور اب کسی بھی جگہ قریش کا کوئی حکمران موجود نہیں ہے، سوائے داعش(دولت اسلامیہ) کے خلیفہ کے جو خلافت کہنے کے حقدار نہیں ہیں کیونکہ اُن کی خلافت اہلِ حل و عقد کی بنیاد پر منعقد نہیں ہوئی نیز اُنہیں سَلطہ (غلبہ) اور تمکین حاصل نہیں ہے۔

  ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی ہے کہ ایک بار پھر قبیلہ حِمیَر کی جانب اقتدار و حکومت کا حکم لوٹنے والا ہے، اور یہ قبیلہ یمنی ہے، یعنی یمن والے ایک بار پھر اقتدار کے تخت پر متمکن ہونے والے ہیں، اور جزیرۃ العرب ان کے زیرِ نگیں آنے والا ہے۔

حبس میں تازہ ہوا

آخری زمانے  میں امت پر آنے والے شدید ترین حالات میں رسول اللہ ﷺ نے یمن کی جانب سے فرحت بخش ہوا کی خوشخبری سنائی ہے: 

  لاَ تَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرَةٌ ثم التفت إلى خلف وَقَالَ وَهُوَ مُوَلِّي ظَهْرِهِ إِلَى الْيَمَنِ ( إِنِّي أَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ هَا هُنَا ) رواه الطبراني.

آپ ﷺ نے فرمایا کہ: مسلسل میری امت میں ایک گروہ حق پر قائم و غالب رہے گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ پیچھے کی طرف  متوجہ ہوئے، یمن  کی طرف آپ پیٹھ کئے ہوئے تھے اور فرمایا: ”میں رحمن کی جانب سے کشادگی کی ہوا اِس طرف

سے محسوس کر رہا ہوں۔“

 

جب اس امت کے اہلِ حق شدید ترین تنگی میں ہوں گے،ظلم و ستم کا شکار ہوں گے، اللہ کے نازل کردہ قوانین کا کہیں پر بھی نفاذ نہیں ہوگا، بلکہ اس کی جگہ انگریز کے بنائے گئے قوانین ہی نافذ العمل ہوں گے۔ کفر ایک ملت بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑ چکا ہوگا، اور مسلمانوں پر حملے کے لئے ایک دوسرے کو ایسے دعوت دے رہا ہوگا جیسا کھانے والے ایک دوسرے کو کھانے کی جانب بلاتے ہیں۔ تب امت کو نَفَسُ الرحمن یعنی خدائی کشادگی اور الہی نصرت کی ضرورت ہوگی۔  ایسے  زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا یمن کی طرف سے خوشخبری لے کر آئے گا کہ فتح و نصرت کا خدائی وعدہ پورا ہونے والا ہے، امت کو جبر کے نظام سے نجات ملنے والی ہے، اور زمین یوں عدل و انصاف سے بھر دی جائے گی جیسے کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی، یعنی منہجِ نبوت پر خلافت قائم ہونے والی ہے، اور اس خیر کا ذریعہ اہلِ یمن والے بنیں گے۔ 

عن أبي جعفر محمد بن علي عليهما السلام، قال: لا يَظهر المهديُۤ إلا على خوفٍ شديدٍ من الناس، وزِلزالٍ، وفتنةٍ وبلاءٍ يُصِيب الناسَ، وطاعونٌ قبلَ ذلك، وسيفٌ قاطعٌ بينَ العرب، واختلافٌ شديدٌ في الناس، وتشتُّتٌ في دينهم، وتغيُّرٌ في حالهم، حتّىٰ يتمنَّى المتمني الموتَ صباحاً ومساءاً، من عظم ما يرىٰ من كَلَب الناس، وأكلِ بعضِهم بعضاً، فخروجُه عليه السلام إذا خَرَجَ يكون عند اليأس والقنوط من أن نرى فرجاً، فيا طوبى لمن أدركه، وكان من أنصاره، والويلُ كلَّ الويل لمن خالَفَه، وخالفَ أمرَه). (عقد الدرر في أخبار المهدي المنتظَر: 1/ 133)

امام ابوجعفر محمد الباقر رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ : امام مہدی ایسے وقت میں ظاہر ہوں گے جب لوگ شدید خوف میں مبتلا ہوں گے، زلزلے اور فتنے ہوں گے، اور آزمائشیں ہوں گی جس میں لوگ گھِرے ہوئے ہوں گے۔ اور آپ سے پہلے طاعون کی وبا پھیل جائے گی، عربوں کے درمیان لڑائی ہوگی، بلکہ ہر جگہ لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا، اُن کے دینی امور بکھرے ہوئے ہوں گے، اتنی پریشان حالی ہوگی کہ لوگ صبح و شام موت کی آرزو کریں گے، اور اس کی وجہ لوگوں کا آپس کا ظلم و ستم ہوگا۔ ہر قسم کی خوشحالی سے مایوسی کے ایسے حالات میں آپ (امام مہدی) کا ظہور ہوگا۔ پس خوشخبری ہو اُس شخص کے لئے جو آپ کو پائے، اور آپ کے انصار میں سے ہو، اور بربادی ہے اُس شخص کے لئے جو آپ کا مخالف ہو۔

یمن کی یہ خیر و برکت حضرت امام مہدی کی شکل میں ہوگی، آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ظلم سے بھری زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ امت خوشحال ہوجائے گی اور خلفائے راشدین کا دور لوٹ آئے گا۔ 

کمزوروں کی مدد کا خدائی ضابطہ

اہلِ یمن کو یہ شرف اس وجہ سے نصیب ہوگا کہ وہ حجاز پر قابض حکام کی جانب سے ظلم کے شکار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے کہ کمزوروں کو طاقت دے کر قیادت کے منصب تک پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

﴿وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ﴾

”اور ہم یہ چاہتے تھے کہ جن لوگوں کو زمیں میں دبا کر رکھا گیا ہے، اُن پر احسان کریں، اُن کو پیشوا بنائیں، اُنہی کو (ملک و مال) کا وارث بنائیں۔ اور انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں۔ “

اللہ دنیا میں اپنے تصرف و قدرت کی شان دکھاتا رہتا ہے، بنی اسرائیل ایک دور میں مصر کے حاکم فرعون کے ظلم کے ایسے شکار تھے کہ اس سے بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، فرعون نے اُن کے ہزاروں بچوں کو تہہ تیغ کیا لیکن وہ اُف تک نہ کر سکے، اُن کی خواتین سے غلاموں والا سلوک کیا جاتا تھا اور یہ سارا ظلم وہ برداشت کر رہے تھے، لیکن اس دوران اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ بنی اسرائیل کو انہیں ظالموں کے تخت و تاج کا وارث بنادیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، بنی اسرائیل کو آپ کے ذریعے قوت ملی اور بالآخر فرعون اور اس کی قوم ہلاک ہوگئی اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے مصر و شام کا وارث بنادیا۔ 

حضرت امام مہدی سے پہلے یمن کی سیاسی و اقتصادی پوزیشن عالمِ عرب میں بہت کمزور ہوگی، جیسا کہ اس وقت کی صورت حال ہے، جزیرۃ العرب کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اسے کٹ کر رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، انہیں اپنے ملک سے نکال دیا گیا، بلکہ خود خلیج و سعودیہ کے حکمرانوں کی جانب سے اس پر جنگ مسلط کی گئی جو ابھی تک جاری ہے، اور جس نے اسے تباہ حال کر رکھا ہے۔ 

خلیجی جنگ اور یمنیوں کا انخلا

روایات کے مطابق اہلِ یمن کو حجاز کا ایک حاکم اپنی سرزمین سے نکال دے گا، جس کے بعد اہلِ یمن اور ان حکام کے درمیان جنگ ہوگی اور پھر حضرت امام مہدی کا ظہور ہوگا۔ 

قال الوليد: يَلِي المَهديُّ فَيُظهِرُ عدلَه ثم يموتُ، ثُمَّ يلِي بعدَه من أهلِ بيته من يَّعدِلُ، ثُمَّ يَلي منهم من يَّجُورُ و يُسِيءُ، حَتّیٰ يَنْتَهِيَ إلیٰ رجُلٍ مِّنْهُم فَيُجْلِيْ الْيَمنَ إلی اليمن ثُمَّ يَسِيرُونَ إِلَيْه فيَقتُلُونَه أو فيُقَاتِلُونَه و يُوَلُّونَ عَلَيهِمْ رجُلا من قُريشٍ يُقَالُ لَه محمد، و قال بعضُ العلماء: إنه من اليمن علی يدي ذلك اليماني تكونُ الملاحِمُ. (نعيم بن حماد في الفتن)

”ایک مہدی صفت حاکم اقتدار تک پہنچے گا تو وہ عدل و انصاف کا اظہار کرے گا، پھر اُس کا انتقال ہوجائے گا، پھر اُس کے خاندان میں سے ایک عادل شخص حاکم بن جائے گا۔ اُس کے بعد ظلم و ستم کرنے والے حکمران بنتے رہیں گے، یہاں تک کہ اقتدار کا یہ سلسلہ اُنہی میں سے ایک ایسے شخص تک پہنچ جائے گا جو اہلِ یمن کو یمن کی طرف جلا وطن کرے گا۔ پھر وہ اس کی جانب چل کر ان سے لڑیں گے۔ اور اپنے اوپر ایسے شخص کو حکمران بنائیں گے جو قریشی ہوگا اور جس کا نام محمد ہوگا۔ بعض علما نے کہا ہے کہ یہ شخص (محمد) یمنی ہوگا اور انہی کے ہاتھوں خونریز جنگیں برپا ہوں گی۔ “

یہ مہدی صفت حاکم عبد العزیز بن محمد آل سعود تھے، جو 1765 سے 1803 تک پہلی سعودی حکومت کے بانی تھے۔ ان کے بعد آل سعود کے اکثر حکمران ظالم و جابر گزرے ہیں۔ یہاں تک کہ اقتدار کا یہ سلسلہ شاہ فہد بن عبد العزیز تک پہنچا جواسی خاندان کے ایک فرد تھے،  1982 سے 2005 تک سعودیہ کے حکمران تھے، جنہوں نے سعودی عرب سے یمنیوں کو نکالا اور سعودی عرب میں کفالت کا نظام رائج کیا ۔ 

 جب عراق نے کویت پر حملہ کردیا تو سارے عرب ممالک نے صدام حسین کی عراقی حکومت کے خلاف اتحاد کر لیا، لیکن یمن کا عمومی جھکاؤ عراق کی جانب تھا، جس کی وجہ سے یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ خصوصا خلیج کی جنگ کے موقع پر یمن نے کھل کر اپنا وزن عرب اتحاد کے مخالف پلڑے میں ڈال دیا، یمن کی اسی خارجہ پالیسی کے رد عمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک کی عاقبت نااندیش قیادت نے اپنے ہاں سے بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کو نکال دیا۔

اس جنگ سے پہلے کویت اور سعودی عرب سمیت دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کی یمن اور یمنیوں پر بڑی عنایات تھیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں یمن کو ان ریاستوں سے بڑے پیمانے پر تعاون ملتا تھا۔ ان ملکوں میں یمنیوں کو کام کرنے اور رہنے کے لئے غیر معمولی سہولیات میسّر تھیں۔ خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے پر انخلا کی وجہ سے یمن میں عوام بہت زیادہ معاشی مشکلات کے شکار ہوگئے۔ خصوصا یمن میں بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ 

اسلام کے آنے کے بعد اہلِ یمن کبھی ایسے اجتماعی طور پر جلاوطن نہیں ہوئے تھے، جیسا کہ سعودی حکمرانوں نے کیا۔ کیونکہ جزیرۃ العرب کی موجودہ سیاسی تقسیم اس طرح نہیں ہوئی تھی جیسا کہ اب ہے، عالم اسلام کے مختلف خطوں کے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ بلاکسی روک ٹوک کے آتے جاتے تھے۔ لیکن خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب ملکوں کے حدود کی لکیریں کھینچی گئیں تو ہر ملک کی سرحدات متعین ہوگئیں، اور بغیر ویزے و پاسپورٹ کے سفر کرنا ممکن نہ رہا۔ ایسے حالات میں جب کہ یمنیوں کی ایک کثیر تعداد روزگار کی تلاش میں سعودی عرب میں مقیم تھی کہ شاہ فہد کے دور میں سعودی عرب میں کفالت کا نظام رائج کیا گیااور اہلِ یمن کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا گیا۔ 

یمن سعودی جنگ

چونکہ روایت میں ثُمَّ کا لفظ ہے جو ایک وقفے کا معنیٰ دیتا ہے اس لئے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقفے کے بعد یمنی لوگ ان جلاوطن کرنے والوں کے ساتھ لڑیں گے۔ اس وقت یہ اپنا سربراہ ”منصور“ نامی حاکم کو بنائیں گے، اور ایسا ہی ہوا۔

1990 کے جبری انخلا کے بعد یمن کے عوام میں عرب حکومتوں خصوصا سعودی عرب کی حکومت کے خلاف جذبات کا پیدا ہونا فطری تھا جس کا فائدہ ایران نے اٹھایا، حسین بدرالدین حوثی نے ایران کے تعاون سے ”شباب المومنین“ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ حسین ایک زبردست خطیب تھا، اس نے ایران کی مدد سے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہسپتا، سکولزاور سوشل ویلفیئر کے دوسرے منصوبے شروع کئے، ان تمام اداروں میں خاص طور پر ”امامی شیعہ دینیات“ کے پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں زیدی شیعوں کو اثنا عشری بنانے کا آغاز ہوا۔ 

ایرانی امداد، خطیبانہ مہارت اور انقلابی نعروں کی بنیاد پر بدر الدین حوثی نے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کیا۔ بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا۔ 14 سال کی محنت سے اس نے اتنی عسکری قوت مہیا کر لی تھی کہ اُس نے 2004 میں یمن پر قبضہ کرنے کے لئے بغاوت کرلی۔ لیکن یہ بغاوت بری طرح ناکام ہوگئی، جس میں بدرالدین حوثی اور اس کے بہت سے اہم رفقا یمنی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ حسین کے مارے جانے کے بعد تنظیم کی قیادت اُس کے بھائی عبد الملک حوثی کے ہاتھ میں آگئی، جس نے زیدی شیعوں سے تعلق مکمل طور پر ختم کر لیا، اور سابقہ تنظیم کو تحلیل کر کے نئی تنظیم ”انصار اللہ“ قائم کی۔ اس تحریک میں صرف اثنا عشری مذہب اختیار کرنے والوں کو شامل کیا گیا۔ 

اس زمانے میں امریکہ اور مغرب،  یمن میں القاعدہ  کے فروغ سے سخت پریشان تھے، جس کے سامنے بند باندھنے کے لئے حوثی تحریک کا انتخاب ہوا، یوں انہیں بیک وقت ایران اور امریکہ دونوں کا مالی اور عسکری تعاون حاصل ہوگیا۔ 

القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ان طاقتوں نے ایک طرف علی عبد اللہ صالح کی وفادار فوج یمنی رپبلکن گارڈ کو مضبوط کرنا شروع کیا، 2004 سے 2011 تک انہیں امریکہ کی جانب سے 326 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ اور نقد رقوم مہیا کی گئیں۔ اور 2004 سے معتوب آنے والی تنظیم حوثی تحریک کی حکومت سےس صلح کرائی گئی۔  دوسری جانب القاعدہ کے خلاف یمنی فوج اور امریکہ نے براہ راست جنگ کا آغاز کیا۔ 

2011 میں جب عرب بہار کا آغاز ہوا اور حدیث کے مطابق جابر آمروں کی گردنیں توڑنے کی ابتدا ہوئی، تو تونس، مصر، لیبیا میں عرب بہار کی کامیابی کے بعد  یمن کے دارالحکومت صنعا اور دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہوئے۔ حکومت نے ان کو سختی سے کچلنے کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ حکومت کی جانب طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاہرین ڈٹے رہے، امریکہ کو خطرہ محسوس ہوا کہ القاعدہ اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، لہذا پر امن انتقال اقتدار کے فارمولے کے تحت علی عبد اللہ صال کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا، جو 1990 سے 2012 تک یمن کے صدر رہے اور 2017 میں قتل ہوئے اور یمن کے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل حکومت قائم کی گئی، جس کے سربراہ صدر ”عبد ربّہ منصور ہادی“ بنائے گئے، جو مسلکا شافعی تھے، جو 2012 سے ابھی تک صدارت کے منصب پر قائم ہیں۔ وزیر اعظم کا عہدہ الاخوان المسلمون کی یمنی شاخ کے پاس آگیا۔

اس حکومت کے ساتھ امریکہ کا رویہ ابتدا ہی سے سرد مہری کا رہا، چنانچہ مغربی طاقتوں نے یمن کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد بند کردی۔ دوسری طرف علی عبد اللہ صالح نے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا 1911 میں یمن سے خلافت عثمانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر متحدہ یمن کے اقتدار پر اہلِ سنت کا قبضہ ہوگیا۔ اس نعرے کو اہل تشیع میں پذیرائی حاصل ہوگئی۔ اور یمن کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں شیعہ اقتدار کی بحالی کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے۔ حؤثی قبائل کی فوجوں نے پیش قدمی شروع کی، اس موقع پر رپبلکن گارڈ نے بھی حوثیوں کا ساتھ دیا، اور یہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے صنعا پر قابض ہوگئے۔ جنہوں نے سب سے پہلے جماعت الاصلاح کے وزیر اعظم کو برطرف کر دیا۔ 

لیکن اس دوران سعودی عرب نے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا، اور 2015 میں سعودیہ نے القاعدہ کی بیخ کنی اور حوثی باغیوں کی پیش قدمی روکنے کے نام پر یمن پر حملہ کردیا۔ یمن پر حملے سے قبل سعودی عرب نے خطے کے اہم اسلامی ممالک کے ساتھ روبط مزید مستحکم کئے، ترکی اور قطر جہاں (اخوانی ذہن والے برسرِ اقتدار ہیں) نے بھی سعودی حملوں کی حمایت کی، ایران و عربوں کی اس لڑائی کے پیچھے امریکی شیطانی ذہنیت کارفرما تھی ، جس نے دونوں جانب آگ لگانے میں کسر نہیں چھوڑی، اور یوں سعودی یمن جنگ کا آغاز ہوا۔ 

  اور یوں روایت کی پیشن گوئی پوری ہوگئی، کہ انخلا کے بعد یمنی اُس شخص کی طرف جاکر اُس سے (اور اس کے ملک) سے لڑیں گے، اس سے پہلے یمنی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ یمن و سعودی عرب کی جنگ بھی ممکن ہے، لیکن قدرت نے ایسا کرکے دکھایا، اور یہ جنگ برپا ہوگئی۔ لیکن اس جنگ کا اختتام کب ہوگا؟ 

یہ جنگ حضرت امام مہدی کے ظہور تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی، یہاں تک کہ اہلِ یمن اپنا حکم ”محمد“ کو بنائیں گے، جو مہدی ہوں گے اورجن کے ہاتھوں خلافت قائم ہوگی اور یوں گھٹن کے دنوں میں رحمن کی جانب سے خیر کی ہوائیں یمن کی جانب سے چلنی شروع ہوجائیں گی۔  

بعدَ المهديّ، الذي يُخْرِجُ أَهْلَ اليمن إلی بلادِهم، ثُمَّ المنصُورُ، ثُمَّ مِن بعدِه المهديُّ الذي تُفتَحُ علی يديه مدينة الروم. (نعيم بن حماد في الفتن)

مہدی صفت حکمران کے بعد ایسا شخص حکمران بن جائے گا جو یمن والوں کو یمن کی جانب جلا وطن کردے گا، اُس کے بعد منصور ہوگا۔ پھر اُس کے بعد مہدی ہوگا جن کے ہاتھوں روم کا شہر فتح ہوگا۔

  یمن میں عوام خصوصا بڑی عمر کے لوگوں میں یہ مقولہ مشہور تھا کہ: من الهادي إلی المهدي یعنی ہادی کے بعد مہدی ہی حکمران ہوں گے۔ یہ ایک الہامی کلمہ معلوم ہوتا ہے جو اللہ نے لوگوں کی زبان پر جاری کر دیا تھا اور روایات سے جس کی توثیق ہوتی ہے۔ 

وجلس عبد الله بن عمرو بن العاص رضى الله عنهما، في مسجد دمشق ليس فيهم إلا أهل اليمن فقال: (يا أهل اليمن كيف أنتم إذا أخرجناكم من الشام واستأثرنا بها عليكم؟ قالوا: أو يكون ذلك قال: نعم ورب الكعبة، فقال: مالكم لا تكلمون؟ فقال بعض القوم: أفنحن أظلم فيه أم أنتم؟ قال: بل نحن، فقال اليماني: الحمد لله سيعلم الذين ظلموا أي منقلب ينقلبون). (أخرجه نعيم بن حماد في الفتن: 1183)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دمشق کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، مجلس میں صرف اہلِ یمن ہی تھے۔ آپ نے فرمایا: اے یمن والو! اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم تم کو شام سے نکال باہر کریں گے، اور یہ خطہ ہم اپنے لئے خاص کرلیں گے؟ وہ کہنے لگے: کیا واقعی ایسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ربِّ کعبہ کی قسم ایسا ہی ہوگا۔ پھر فرمایا، تم کیوں نہیں بولتے؟ تو کسی نے کہا: اس معاملے میں ہم ظالم ہوں گے یا تم؟ آپ نے فرمایا: ہم ہی ظالم ہوں گے۔ تو اُس یمنی شخص نے کہا: الحمد للہ! عنقریب ظالم لوگ جان لیں گے کہ وہ کس انجام کی جانب جانے والے ہیں۔ نعیم بن حماد کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں نےوہ زمانہ پالیا، تو میں یمن والوں کا ساتھ دوں گا،  کیونکہ غلبہ ان کا ہی ہوگا۔ گویا اس جنگ کا نتیجہ بالآخر یمنیوں کی جیت کی صورت مین نکلے گا، لیکن یہ جیت حضرت امام مہدی کے ہاتھوں ہوگی۔ 

یہ روایت بھی سعودی حکمرانوں کےاہلِ یمن پر ظلم و ستم کی تفصیلات بیان کر رہا ہے۔ ”شام“ کے لفظ سے کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جزیرۃ العرب کے جنوبی حصے کے مقابلے میں شمالی حصہ شام کہلاتا ہے، نیز سعودی عرب کا شمالی حصہ تبوک وغیرہ جغرادیائی لحاظ سے شامی سرزمین کا حصہ ہے۔

نعیم بن حماد ہی کی ایک روایت( ۱۱۹۵) میں یہ الفاظ ہے کہ ”اے اہلِ  یمن! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب قبیلہ مُضَر والے تمہیں نکال باہر کریں گے؟“یمنی قبائل قحطانی عرب کہلاتے ہیں، جبکہ حجازی قبائل عدنانی عرب کہلاتے ہیں جن کی دو مشہور شاخیں ہیں۔ ربیعہ اور مُضَر، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے ارشاد میں لفطِ ”مُضَر“ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات خطۂ حجاز کے متعلق ہورہی ہے، جہاں مُضَر والے حکمران ہوں گے، اور قحطانی عربوں کو اپنی سرزمین سے باہر کریں گے، اہلِ یمن قحطانی عرب ہیں۔ 

انصار المہدی

جب اتنی بات معلوم ہوگئی کہ حضرت امام مہدی کا تعلق یمن کے ساتھ ہوگا، اور یمن کی جانب سے جس کشادگی کی خوشخبری کی بشارت دی گئی ہے وہ حضرت امام مہدی کے دور میں پوری ہوگی، تو یقینا یمنی قبائل ہی سب سے زیادہ حضرت امام مہدی کے مددگار ہوں گے۔ 

ويفتح الله عز وجل له خراسان، وتطيعه أهل اليمن، وتقبل الجيوش أمامه، ويكون همدان وزاراءه، وخولان جيوشه، وحمير أعوانه، ومصر قواده، ويكثر الله عز وجل جمعه بتميم. (عقد الدرر في أخبار المنتظر)

اللہ تعالیٰ آپ (امام مہدی) کے لئے خراسان کو فتح فرمائیں گے، یمن والے بھی آپ کے اطاعت کریں گے، لشکر آپ سے آگے آگے چلیں گے، قبیلہ ہَمدان آپ کے وزرا ہوں گے، قبیلہ خَولان آپ کا لشکر ہوگا، اور قبیلہ حِمیَر آپ کے مددگار ہوں گے، مِصر والے آپ کے (لشکر) کے کمانڈر ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ آپ کی جمعیت کو قبیلہ تمیم کے ذریعے بڑھائے گا۔ 

ہمدان، خولان اور حِمیَر تینوں یمنی قبائل ہیں۔ رہ گئیں وہ روایات جن میں صراحت ہے کہ آپ کے پاس عراق کی جماعتیں، شام کے ابدال اور مصر کے اہلِ سیاست و شرافت آئیں گے تو وہ تب ہوگا جب آپ کو اللہ بیعت کے بعد حجاز میں غلبہ عطا کردے گا اور مقابلے پر آنے والا سفیانی کا لشکر زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ اُس وقت تک آپ کے ساتھی یمنی قبائل ہی ہوں گے جو آپ کے مدد گار ہوں گے۔ واللہ اعلم

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟

کیا حضرت امام مہدی کے ظہور سے پہلے خلافت قائم ہوگی؟