امام مہدی سےپہلے رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد

 

امام مہدی سےپہلے رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد

            سيكون بينكم وبين الروم أربعُ هُدَنٍ، يومُ الرابعة على يد رجل من آل هِرقلَ، يَدُومُ سبعَ سنين. فقال له رجلٌ من عبد القيس، يقالُ له: المُستَورِد بن جيلان: يا رسولَ الله! مَنْ إمامُ الناس يومئذ؟.قال: المهديُّ من وُلدي، ابنُ أربعين سنة.([1])

                ”تمہارے اور رومیوں کے درمیان چار مصالحتیں (اتحاد) ہوں گی، چوتھی مصالحت آل ہرقل کے ایک شخص کے ہاتھوں ہوگی جو سات سات تک جاری رہے گی، عبدالقیس قبیلے کے ایک شخص نے جنہیں مستورد ابن جیلان کہا جاتا تھا عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! تب مسلمانوں کا امام کون ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مہدی ہوں گے جو میری اولاد میں سے ہیں، اور چالیس سال کے ہوں گے۔ “

پہلا اتحاد

                1979 ؁ میں افغانستان پر جب روسی جارحیت ہوئی، اور اس کے خلاف وہاں کے مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے، مزاحمت شروع ہوئی، دو تین سال میں کچھ آگے بڑھی تو امریکہ بھی اس میدان میں کود پڑا، اور اسے سوویت یونین کے خاتمے کا اپنا منصوبہ پورا کرنے کا موقع ملا، امریکہ نے عربوں کو مجاہدین کے ساتھ مالی تعاون پر ابھارا، میڈیا کے ذریعے مجاہدین کی حمایت کی، خصوصا عرب ملکوں کے امرا کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے برسرِ اقتدار طبقے کا امریکہ کے ساتھ روس کے خلاف ایک اتحاد وجود میں آیا، مجاہدین کو درپردہ امریکی حمایت اور اپنی حکومتوں کا تعاون ملنے لگا، جس کی وجہ سے ایک کثیر تعداد عرب ملکوں سے بھی اور خود افغانستان کے پڑوسی ملکوں سے  ہزاروں کی تعداد میں مخلص مجاہدین روس کے خلاف جہاد کے لئے افغانستان آئے۔

                امریکی اس اتحاد اور سوویت یونین کے خلاف جہاد کی امداد سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔

(۱):۔۔۔۔  جنگ کی آگ میں جھونک کر مجاہدین اور جہادی علما سے جان چھڑانا چاہتا تھا، اگر اس جنگ میں سرخ ریچھ جیسے عفریت کے مقابلے میں روسی فوجی مرتے تو یہ امریکیوں کے لئے خوشی کی بات تھی، اور اگر مجاہدین کا جانی نقصان ہوتا تب بھی امریکہ کے لئے قابلِ اطمینان تھا کہ اسلام کی صورت میں اصل دشمن کا خاتمہ ہوتا ہے۔

(۲):۔۔۔۔  دوسرا مقصد یہ تھا کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ کے سامنے عالمی نظام کو قابو میں رکھنے خصوصا خلیجی تیل پر قبضہ کرنے میں کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، جس کو روسی اور فرانسیسی لالچی نظروں سے دیکھ رہے تھے، اس کی صراحت خود سابقہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بھی اپنی کتاب ” بغیر جنگ کے فتح“ میں کی ہے۔

                اس جنگ کا سارا بوجھ مسلمانوں کے کندھے پر رہا، مسلمانوں نے بھی اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جنگ لڑی، امریکہ اپنے پہلے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا، اور مجاہدین کو اللہ نے فتح و نصرت سے نوازا۔ سوویت یونین کو شکست ہوئی، مجاہدین کو غنیمت ملی۔ ۷۰ فیصد اسلحہ وہی تھا جو انہوں نے روس سے قبضہ کر کے حاصل کیا تھا، افغانستان کو اُن روسی مظالم سے نجات مل گئی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی تھی، اور جن کا ارتکاب اس نے وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں میں کیا تھا۔ اور یہ حدیث صادق ہوئی کہ :

ستصالحون الروم صلحاً آمنا فتغزون أنتم وهم عدواً من ورائكم فتُنصَرون وتَغْنَمون وتَسْلَمون.([2])

”تمہاری رومیوں ےسے ایک پرامن صلح ہوگی، اور تم پیچھے کے ایک دشمن سےلڑوگے، تمہاری مدد ہوگی، غنیمت ملے گی اور سلامتی حاصل ہوگی“

اس جنگ سے مسلمانوں اور مجاہدین کی بہ نسبت مغرب نے ہی زیادہ فائدہ اٹھایا، البتہ ان کا خواب بھی پورا نہیں ہوا، اور جن مجاہدین کو اس نے اپنا ایجنٹ سمجھ لیا تھا وہ ایک بڑی قوت بن کر ابھرے۔ جہاد افغانستان کے نتیجے میں انہیں  اپنی قوت کا اندازہ ہوا، اور وہ اپنے ملکوں میں انقلاب لانے اور مغربی اثر رسوخ پر مبنی سیکولر نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے منصوبے بنانے لگے۔ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِہٖ نتیجتاً امریکی سازش خود اس کے اوپر الٹ پڑی۔

                  مسلمان مجاہدین اگر چہ اس صلح اور اتحاد میں براہ راست شریک نہیں تھے، البتہ یہ جہاد جس کی امریکہ پشت پناہی اپنے مقاصد کے لئے کر رہا تھا اس میں مجاہدین اور علما خود شامل تھے یا حمایتی تھے۔ مجاہدین اور جہادی علما و کمانڈر عرب ملکوں کے دورےکرتے، امریکی تعاون یا مدد ان سے مخفی نہیں تھا، لیکن ان کے سامنے ایک ایسا دشمن تھا جس کی قوت توڑ کر اس سے خلاصی پانا ضروری تھا، اس لئے انہوں نے امریکی امداد یا اعانت قبول کر لی تھی۔ اسی وجہ سے یہ اتحاد بھی مسلمانوں کی طرف منسوب کیا گیا۔ چنانچہ حدیث کی پیشین گوئی ثابت ہوگئی، امریکہ کو بھی اپنے دشمن کے خاتمے کی صورت میں فتح مل گئی تھی، جہادی دھارے کو بھی کامیابی مل گئی، مجاہدین کو فراخی اور وسعت ملی، غنیمت اور حکومت کی صورت میں۔ اور وہ قوت و اقتدار  تک پہنچے۔

                جہاد کا یہ نتیجہ نکلنا کہ مجاہدین افغانستان میں اقتدار حاصل کریں، افغانستان میں شریعت نافذ ہو، اپنے اپنے ملکوں میں نفاذِ شریعت کی بات کریں، اور امت عالم اسلام پر مسلط ٹولے کے خلاف انگڑائی لے، اس نے امریکہ اور مسلم ملکوں پر قابض برسرِ اقتدار ٹولے  کو غیظ و غضب میں مبتلا کر دیا، اور مجاہدین کے افغانستان جانے کو انہوں نے ایک جرم بنا لیا۔ مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں ایسے مجاہدین کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود افغانستان میں مجاہدین کے درمیان نفرت اور دشمنی کی آگ کو ہوا دی گئی اور انہیں متفق نہیں ہونے دیا گیا۔

دوسـرا اتحـاد

                روس کا اصل مقصد ہی گرم پانیوں اور اس کے بعد خلیج تک پہنچنا تھا، افغانستان اس کے لئئے محض ایک راہداری تھا، جس سے گزر کر وہ قزوین کے تیل کو محفوظ کر کے خلیج تک جاکر وہاں قابض ہونا چاہتا تھا، لیکن وہ خلیجی تیل تک پہنچ نہ پایا اور اپنے وجود سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا۔  روس سے پہلے ایسی کوشش فرانس بھی کر چکا تھا جب اس نے خمینی کو فرانس سے ایران بھیجا، ایران میں امریکی شاہ کو نکال کر انقلاب کے ذریعے خمینی اقتدار کا راستہ ہموار کر دیا گیا ، تاکہ اس کے ذریعے ایران سے آگے خلیجی پانیوں اور تیل تک رسائی ملے ، امریکہ نے فرانسیسی خطرے کے سامنے بند باندھنا چاہا، اس لئے ایران  جو روسی و فرانسیسی عزائم کا کارندہ بنا ہوا تھا امریکی غیظ و غضب کا اگلا ہدف بنا ۔

                چنانچہ خلیجی ممالک کے شیوخ آگے بڑھے اور عراقی صدر صدام حسین کو ایرانی خطرے کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا، امریکہ اور یورپ نے مل کر عراق کو طاقتور بنایا، خطے کے عرب ممالک نے بھی عراق کا ساتھ دیا ، ان سب کے پیچھے امریکی امداد و حمایت تھی، امریکی ایما پر عراق  نے ایران پر حملہ کیا ، جس کے نتیجے میں  جنگ شروع ہوئی جو دونوں ملکوں کے درمیان  آٹھ سال تک چلی۔ اس جنگ میں دس لاکھ افراد جان سے گئے اور فریقین کا کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا، مصنوعی سیاروں کے ذریعے امریکا نے عراقی فوج کو کئی مواقع پر ایرانی فوج کی پیش قدمی اور تعیناتی کے حوالے سے بھی اہم معلومات فراہم کیں۔ اِن معلومات کی بُنیاد پر کارروائی کرکے عراقی فوج نے غیر معمولی فتوحات حاصل کیں۔ امریکا نے عراق کو ایرانی افواج کے خلاف استعمال کے لیے زہریلے کیمیکلز بھی دیئے۔ اِن کیمیکل سے بم بناکر ایرانی فوج پر داغے گئے۔

                ایران کی فوج بڑی مضبوط اور منظّم تھی۔ اُسے ہرانے کے لیے عراق کی فوج کا بھی بڑا اور زیادہ طاقتور ہونا لازم تھا۔ امریکا نے عراق کو ایک بڑی فوج بنانے میں مدد اس لئے دی، تاکہ اس کے ذریعے ایران کا کانٹا نکالا جاسکے، اور جب عراقی فوج نے ایران کو شکست دے دی تب یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوا کہ عراق اِتنی بڑی فوج کا کیا کرے گا؟ یہ سوال بہت اہم تھا کیونکہ عراقی فوج آگے چل کر خِطّے میں امریکی مفادات کے لیے زبردست خطرہ بن سکتی تھی۔ بلکہ صدام حسین کھلم کھلا اسرائیل کو للکارنے لگا۔ نیز وہ اپنے ملک کے اسلام پسندوں کے لئے بھی وبالِ جان بننے لگا، اسی وجہ سے شیخ عبداللہ عزام شہید ؒ فرماتے تھے کہ ایرانی رافضی خطرے سے نمٹنا جتنا ضروری ہے حزب البعث (صدام حسین کی بعثی پارٹی) کا خطرہ دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے، یہ کینسر کی رسولی ہے جسے عنقریب امت اپنے جسم سے دور پھینکے گی، کیونکہ یہ عنصر امت میں بالکل نیاہے، لیکن شیعی خطرہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے، ان کا یہ بیان افغانستان میں ریکارڈ کئے گئے تقریروں میں سے ایک ہے۔

                یہ فتح و نصرت بھی امریکی خانے میں چلی گئی، تب بہت سوں کو ندامت ہوئی، چنانچہ شیخ سفر الحوالی نے اپنی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا جو انہوں نے عراق ایران جنگ پر اختیار کی تھی اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کو جزیرۃ العرب میں داخلے کا موقع مل گیا، ان کی یہ بات فستذكرون ما أقول لكم وأفوض أمري إلى الله کے عنوان سے ایک لیکچر میں موجود ہے۔

                اس اتحاد اور مصالحت پر وہ حدیث منطبق ہوتی ہے جسے ابونعیمؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے: يكون بين المسلمين وبين الروم هدنة وصلح حتى يقاتلوا معهم عدوا لهم فيقاسمونهم غنائمهم ثم إن الروم يغزون مع المسلمين فارس([3])مسلمانوں اور رومیوں ے درمیان صلح ہوگی، یہاں تک کہ وہ اپنے ایک دشمن کے ساتھ لڑیں گے، اور اپنی غنیمتوں کو آپس میں تقسیم کریں گے، اس کے بعد رومی مسلمانوں کے ساتھ مل کر فارس سے لڑیں گے۔

تیسرا اتحـاد

                جب ایران کے ساتھ جنگ کا خاتمہ ہوا تو امریکہ کے سامنے اگلا منصوبہ عراقی خطرہ ختم کرنے کا تھا، اس کی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس منظم فوج امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث تھی، جو خلیج پر قبضے کے سامنے دیوار بن سکتی تھی، چنانچہ امریکہ نے عراق کو کویت پر قبضہ کرنے کی بالواسطہ تحریک دی، صدام حسین کو اس پر آمادہ کیا گیا کہ کویت پر عراق کا حق تسلیم شدہ ہے اس لئے اسے کویت پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہئے۔ اسے اپنی حمایت کا گرین سگنل دیا، عراق نے جب کویت پر قبضہ کر لیا تو امریکہ نے ایک بڑی جنگ کی تیاری کی، عراق نے امن مذاکرات کی پیشکش کی جسے امریکہ نے ٹھکرا دیا، دسمبر ۱۹۹۰ء میں امریکی صدر جارج ہربرٹ بُش نے کہا کہ اِس بار عراقی صدر کو ایک اچھا سبق سیکھنے کو ملے گا۔ یہ الفاظ سُن کر صدام حسین کے ہوش ٹھکانے پر آگئے مگر تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب مصالحت اور امن کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔ امریکا نے خطے کے لیے ایک اور جنگ کو لازم قرار دے دیا تھا۔

                عراق کے خلاف اتحاد کو سب نے سراہا، اور حمایت کی، عموما حکومتی حمایت یافتہ علما اور افتا وتحقیق کے شعبوں نے اس کی تائید کی، البتہ آزاد علما نے عراق کا کویت پر قبضہ کرنے کی مذمت کی، لیکن اس کو بنیاد بنا کر امریکی مداخلت کو بھی انہوں نے مسترد کر دیا، حکومتوں کی سطح پر صرف یمنی حکومت نے امریکی مداخلت کو مستردکر دیا، اس لئے یہ اتحاد بھی صرف حکومتوں کی سطح پر نہیں تھا کہ کہا جائے کہ اس میں مسلمانوں کا کوئی دخل نہیں تھا، اوریہ ابن باز، ابن عثیمین اور ازہر جیسے علما و اداروں کی تائید و حمایت تھی، بلکہ مسلمانوں کی جانب ہی منسوب تھا۔

                یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ ایران، روس اور عراق تینوں کو فارس کہا جاسکتا ہے۔ ایران و عراق دونوں اس اتحاد میں روسی بلاک کا حصہ تھے۔ عراق نے روس پر بھروسہ کیا لیکن اس نے موقع ملتے ہی خیانت کی۔ چنانچہ یہ اس حدیث کا مصداق بنی کہ:

ثم فتنة السراء دخنها من تحت قدمي رجل من أهل بيتي يزعم أنه مني وليس مني وإنما أوليائي المتقون، ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع ثم فتنة الدهيماء.(أبو داود، مستدرك حاكم)

”اس کے بعد خوشحالی کا فتنہ آئے گا، جس کی ابتدا اس شخص کے پیروں کے نیچے سے ہوگی جو میرے اہلِ بیت میں سے ہوگا اور جس کا دعوی ہوگا کہ وہ مجھ سے ہے لیکن اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، میرے دوست تو متقی لوگ ہیں۔ اس کے بعد لوگ ایسے شخص پر متفق ہوجائیں گے جو پسلی پر کولہے کی طرح ہوگا۔ اس کے بعد دہیما کا فتنہ ہوگا۔“

یہ شخص جسے حدیث میں پسلی پر کولہے یا کوکھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اس سے مراد ایک شخصیت بھی ہوسکتی ہے اور اس سے مراد ایک نظم بھی ہوسکتا ہے یعنی نظام حکومت کی کمزوری اور ناپائیداری کی جانب بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ جب یہ سب (روس، ایران، عراق) فارس میں داخل ہیں، تو امریکہ نے پہلے ایرانی خطرے کو ختم کیا، اس کے بعد روس کو افغانستان میں گھیر کر ٹکڑے کر دیا گیا ، پھر عراق کو تباہ کر دیا، ، امریکہ اگر عراقی جنگ میں اور اس کے ساتھ موجودہ افغان جنگ میں نہ پھنستا تو اگلی باری شام کی تھی، جو روسی بلاک میں شامل تھا۔ چنانچہ عراق سے ملاحم کی ابتدا ہوئی۔

                ان سارے واقعات اور اتحادوں کا حضرت امام مہدی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ جواب یہ ہے کہ بہت قریبی تعلق ہے۔ اور یہ سب حضرت امام مہدی کے ظہور سے پہلے مکمل ہوگا۔

سيكون بينكم وبين الروم أربع هدن، يوم الرابعة على يد رجل من آل هرقل، يدوم سبع سنين . فقال له رجل من عبد القيس، يقال له: المستورد بن جيلان: يا رسول الله من إمام الناس يومئذ؟.قال: "المهدي من ولدي، ابن أربعين سنة.([4])

حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تمہارے اور رومیوں کے درمیان چار صلحیں ہوں گی، چوتھی صلح آل ہرقل میں سے ایک شخص کے ہاتھوں پر ہوگی جو سات سال رہے گی۔ عبدالقیس میں سے ایک شخص جسے مستورد بن جیلان کہا جاتا تھا کہنے لگا: یا رسول اللہ! اس دن مسلمانوں کا امام کون ہوگا؟ مہدی ہوگا جو میری اولاد میں سے ہوگا، چالیس سال کی عمر میں ہوگا۔

یہ ساری مصالحتیں واقع ہوچکی ہیں، روس کے خلاف افغانستان میں، ایران کے خلاف، اور پھر عراق کے خلاف۔ اس کی تائید ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے جو حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يُوشِكُ أَهْلُ الْعِرَاقِ أَنْ لاَ يُجْبَى إِلَيْهِمْ قَفِيزٌ وَلاَ دِرْهَمٌ.قُلْنَا مِنْ أَيْنَ ذَاكَ قَالَ مِنْ قِبَلِ الْعَجَمِ يَمْنَعُونَ ذَاكَ. ثُمَّ قَالَ يُوشِكَ أَهْلُ الشَّأْمِ أَنْ لاَ يُجْبَى إِلَيْهِمْ دِينَارٌ وَلاَ مُدْىٌ. قُلْنَا مِنْ أَيْنَ ذَاكَ قَالَ مِنْ قِبَلِ الرُّومِ.ثُمَّ سَكَتَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِى خَلِيفَةٌ يَحْثِى الْمَالَ حَثْيًا لاَ يَعُدُّهُ عَدَدًا.([5])

عنقریب عراق والوں کے پاس روپے اور غلہ آنے پر پابندی لگا دی جائے گی، ہم نے پوچھا یہ پابندی کن کی جانب سے ہوگی؟ آپ  ﷺ نے فرمایا: عجمیوں کی جانب سے جو یہ چیزیں روکیں گے۔ پھر فرمایا: عنقریب اہلِ، شام پر بھی پابندی لگا دی جائے گی اور ان کے پاس نہ دینار (کرنسی) آنے دی جائے گی نہ مُدی (ایک مخصوص پیمانہ) ہم نے عرض کیا یہ کن لوگوں کی جانب سے ہوگا؟ آپ نے فرمایا: رومیوں کی جانب سے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا: میری امت کے آخر میں ایک خلیفہ ہوگا جو لپ بھر کر لوگوں کو مال دے گا اور شمار نہیں کرے گا۔

                اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ خلیفہ جو کثرت کے ساتھ مال تقسیم کر ےگا  شام اور عراق کے اقتصادی ناکہ بندی کے بعد ظاہر ہوگا۔ شام و عراق کی اقتصادی ناکہ بندی رومیوں کے جانب سے ہوئی جس میں خلیجی امرا اور مسلمین کہلائے جانے والے بھی شامل تھے۔ اب اسی خلیفہ کی آمد باقی ہے جو لپ بھر کر مال و  دولت فراہم کرے گا اور جو کثیر روایات سے متعین ہوتا ہے کہ وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔\


صلیب توڑ دی گئی

                اس تطبیق کے بعد اب یہ اشکال باقی رہتا ہے جو رومیوں کے ساتھ صلح کے بارے میں ایک روایت کی وجہ سے سامنے آتا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

          سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا، فَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ، فَتُنْصَرُونَ، وَتَغْنَمُونَ ، وَتَسْلَمُونَ ، ثُمَّ تَرْجِعُونَ حَتَّى تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ ، فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ النَّصْرَانِيَّةِ الصَّلِيبَ ، فَيَقُولُ: غَلَبَ الصَّلِيبُ ، فَيَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، فَيَدُقُّهُ، فَعِنْدَ ذَلِكَ تَغْدِرُ الرُّومُ ، وَتَجْمَعُ لِلْمَلْحَمَةِ ، وَيَثُورُ الْمُسْلِمُونَ إِلَى أَسْلِحَتِهِمْ ، فَيَقْتَتِلُونَ، فَيُكْرِمُ اللَّهُ تِلْكَ الْعِصَابَةَ بِالشَّهَادَةِ.([6])

          تمہاری رومیوں کے ساتھ ایک پر امن صلح ہوگی، تم اور وہ پیچھے ایک دشمن کے ساتھ لڑیں گے، تمہیں سلامتی مل جائے گی اور غنیمت بھی، اس کے بعد تم سرسبز ٹیلوں والی زمین میں اتروگے، ایک عیسائی شخص صلیب بلند کر کے کہے گا صلیب غالب آگئی، مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف غضبناک ہو جائے گا اور صلیب کو توڑ ڈالے گا، تب رومی غداری کریں گے، اور ملحمہ کے لئے جمع ہوجائیں گے۔ مسلمان بھی اپنے اسلحہ کی جانب لپکیں گے، جنگ کریں گے، اس جماعت کو اللہ تعالیٰ شہادت سے سرفراز فرمائیں گے۔

                اشکال یہ ہے کہ رومیوں کے ساتھ تینوں اتحاد اور مصالحتیں اگر پیش آچکی ہیں تو ان کے بعد رومیوں کی جانب سے صلیب کے غالب آجانے کا نعرہ کس نے اور کب لگایا ہے؟  اور مسلمانوں کی جانب سے ایک شخص کا نکل کر اسے توڑ دینے کا واقعہ کب ہوچکا ہے؟

                جارج بش، کویتی سرحد کے قریب شمالی سعودیہ کی چھاؤنی” خفجی“میں کھڑا ہوتا ہے جو ریتیلے ٹیلوں والا علاقہ ہے، اور جو ”مرج ذی تلول“ کا مصداق بن سکتا ہے۔ اور اپنی فتح اور صلیب کے غالب ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ ہرقل کے بعد یہ پہلا صلیبی حاکم تھا جو جزیرۃ العرب میں فاتحانہ شان سے داخل ہوا، غزوہ موتہ کے بعد کسی صلیبی حاکم کو جزیرۃ العرب میں داخلے کی جرأت نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ صلیبی حملوں کے دوران بھی کوئی عیسائی حکمران یہاں اس حیثیت سے نہیں آسکا تھا۔ اگر جارج بش اپنی فتح کا اعلان نہ کرتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس نے صلیب بلند نہیں کی، لیکن اس نے وہ کام کیا جو اس سے پہلے کسی صلیبی حاکم نے نہیں کیا تھا۔ پے درپے جن معرکوں میں امریکیوں کو فتح حاصل ہوچکی تھی اور ایک ایک کر کے اس کے دشمن (روس، ایران، عراق) مٹ چکے تھے اس کے بعد کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی فتح کا اعلان نہ کرلیتا۔ چنانچہ فتح کا اعلان کرنا ہی” رفع صلیب “ تھا۔

                چنانچہ نیو ورلڈ آرڈر کے اعلان کے بعد (جو صلیب کی حاکمیت کا کھلم کھلا اعلان تھا) شیخ اسامہ بن لادن کھڑے ہوئے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو نشانہ بنا کر اسے زمین بوس کر دیا، یہ صلیب توڑ دینے کا ایک علامتی اعلان تھا، کیونکہ ٹریڈ سنٹر صلیبیت کے عالمی غلبے کا مادی مرکز تھا، جس کا توڑنا ” ملاحم “ کی ابتدا ثابت ہوئی، جس پر امریکہ غضبناک ہو کر اپنے بل سے نکل آیا اور اس نے پہلے افغانستان اور پھر عراق کو تارج کر دیا۔

                یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ شیخ اسامہ بن لادن نے صلیب نہیں توڑی بلکہ انہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاور توڑے تھے! یہ اشکال زیادہ قابلِ فہم نہیں ہے اس لئے کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کوئی مسلمان اٹھ کر لکڑی کا بنا ہوا کوئی صلیب توڑ دے اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان وہ خونریز جنگیں شروع ہوجائیں جو اس سے پہلے تاریخ میں کبھی لڑی نہیں گئیں ہیں۔ دوسری جانب اگر ٹریڈ سنٹر زمین بوس ہوجائے جس کے بعد عالمی خونریز جنگیں شروع ہوئیں تو انہیں ملاحم کی ابتدا اس وقت تک نہیں کہا جائے گا جب تک حقیقتا کوئی مسلمان اٹھ کھڑا ہو کر صلیب نہ توڑے، چاہے صلیبی اسی جھنڈوں تلے آکر مسلمانوں کے ساتھ جنگِ عظیم کیوں نہ لڑیں۔ 

                بعض اوقات لفظ کی بجائے معنوی پہلو زیادہ قابلِ قبول ہوتا ہے، حدیث میں وارد ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اجمعین مین سے کسی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہم میں سے کون پہلے آپ کی وفات کے بعد آپ سے ملے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جس کے ہاتھ لمبے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ایک لکڑی لے کر اپنے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کئے، تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ سب سے لمبے تھے۔ اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ہاتھ لمبے ہونے سے مقصود کثرت صدقہ تھا۔([7] ) حدیث اس پر دلیل ہے کہ اعتبار معانی کا کیا جاتا ہے نہ کہ محض الفاظ کا، کیونکہ ازواج مطہرات نے طول ید سے ظاہری عضو مراد لیا تھا جبکہ اس سے مراد کثرت صدقہ تھا۔ حجر اسود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ يمين الله في الأرض یعنی زمین پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح ٹریڈ سنٹر کے دونوں ٹاور بھی معنوی پہلو کے لحاظ سے صلیب کا مصداق بن سکتا ہے۔

                طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ وَصَلِيبُهُمْ مِنْهُمْ غَيْرُ بَعِيدٍ([8])کہ ان کا وہ صلیب ان سے دور نہیں ہوگا (بلکہ ان کے اپنے وطن میں ہوگا) اسی وجہ سے جب جہاز اڑانے والے بہادر شیروں نے ٹریڈ سنٹر کے بعد دوسری عمارتوں کا رخ کیا تو چوتھے طیارے کو گرادیا گیا کیونکہ صلیب ان سے دور نہیں تھی بلکہ قریب تھی۔ ويثور الروم إلى كاسر صليبهم فيقتلون ”رومی لوگ صلیب توڑنے والے شخص کی طرف جاکر اسے قتل کردیں گے“ چنانچہ شیخ اسامہؒ کو شہید کر دیا گیا۔ ويثور المسلمون إلى أسلحتهم فيقتلون فيكرم الله عز وجل تلك العصابة من المسلمين بالشهادةمسلمان اسلحہ لے کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور رومیوں کے ساتھ لڑیں گے ، اللہ تعالیٰ اس گروہ کو شہادت سے سرفراز فرمائے گا۔ حدیث کا یہ حصہ بھی وقوع پذیر ہوچکا ہے اور ”القاعدہ“ کی صف اول کی قیادت شہید ہوچکی ہے۔

چوتھا اتحـاد

                چوتھی مرتبہ اتحاد یا صلح حضرت امام مہدی کے زمانے میں ہوگی تب رومی اس آخری فیصلہ کن جنگ کے لئے جمع ہوں گے، جو ملحمہ کبری پر منتج ہوگی۔ 

          فتنة لا يبقی بيت من العرب إلا دخلته، ثم هدنة تكون بينكم و بين بني الأصفر فيغدرون، فيأتونكم تحت ثمانين رأية، تحت كل رأية اثنا عشر ألفا.)[9](

                ”ایسا فتنہ ہوگا کہ عرب کا کوئی گھر ایسا نہیں بچے گا جس میں یہ فتنہ داخل نہ ہوچکا ہوگا، اس کے بعد تمہارے اور گوروں کے درمیان صلح ہوگی، پھر وہ غداری کریں گے، اور تمہارے خلاف اسی جھنڈوں تلے آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار کی تعداد ہوگی۔“

                ایک طویل حدیث میں جس کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے جنگوں کے اس سلسلے کے بارے میں یہ کہا کہ یہ جنگ چار مرحلوں میں ہوگی، جن میں تین کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا نہ کوئی غالب نہ کوئی مغلوب، اس کے بعد والے معرکے میں پھر مسلمانوں کو کھلی فتح مل جائے گی۔

          لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالأعماق أو بدابق، فيخرج إليهم جيش من المدينة من خيار أهل الأرض يومئذ، فإذا تصافوا قالت الرومخلوا بيننا وبين الذين سبوا منا نقاتلهم، فيقول المسلمونلا والله لا نخلي بينكم وبين إخواننا، فيقاتلونهم فينهزم ثلث لا يتوب الله عليهم أبدًا، ويقتل ثلثهم أفضل الشهداء عند الله، ويفتتح الثلث لا يفتنون أبدًا.([10])

        قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک رومی أعماق یا دابق میں نہ اتریں، ان کے مقابلے میں مدینہ سے مسلمانوں کا ایک لشکر نکلے گا جو اس وقت روئے زمین پر بہترین لوگوں کا ہوگا، جب یہ لوگ جنگ کے لئے صفیں بنا لیں گے، تو رومی کہیں گے کہ آپ ہمارا راستہ چھوڑ دیں ہم صرف ان سے لڑیں گے جنہوں نے ہمارے لوگوں کو قید کیا ہوا ہے، مسلمان کہیں گے اللہ کی قسم ہم ہرگز اپنے مسلمان بھائیوں کے سامنے سے نہیں ہٹ سکتے، چنانچہ یہ لوگ لڑیں گے، ایک تہائی شکست کھا جائے گا جن کی توبہ اللہ کبھی بھی قبول نہیں کرے گا، اور ایک تہائی حصہ شہید ہوجائے گا جو اللہ کے ہاں افضل شہدا کا مقام پائیں گے، اور بقیہ ایک تہائی کو فتح حاصل ہوجائے گی، یہ لوگ کبھی بھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔

اس جنگ کی کچھ مزید تفصیلات حدیث میں موجود ہیں۔

          وَتَكُونُ عِنْدَ ذَاكُمُ الْقِتَالِ رَدَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَيَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لاَتَرْجِعُ إلَّاغَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يَحْجُزَ بَيْنَهُمُ اللَّيْلُ فَيَفِيءُ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ كُل ٌّغَيْرُ غَالِبٍ، وَ تَفْنَى الشُّرْطَةُ ثُمَّ يَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَاتَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يَحْجُزَ بَيْنَهُمُ اللَّيْلُ فَيَفِيءُ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ كُلّ ٌغَيْرُ غَالِبٍ، وَ تَفْنَى الشُّرْطَةُ ثُمّ َيَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لاَتَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يُمْسُوا فَيَفِيءُ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ كُلّ ٌغَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ، فَإِذَا كَان َيَوْمُ الرَّابِعِ نَهَدَ إِلَيْهِمْ بَقِيَّةُ أَهْلِ الإِسْلَامِ، فَيَجْعَل ُاللَّهُ الدَّبْرَةَ عَلَيْهِمْ، فَيَقْتُلُونَ مَقْتَلَةً إِمَّا قَالَ لَايُرَى مِثْلُهَا، وَ إِمَّا قَالَ: لَم ْيُرَمِثْلُهَا حَتَّى إِنَّ الطَّائِرَ لَيَمُرُّ بِجَنَبَاتِهِمْ، فَمَا يُخَلِّفُهُمْ حَتَّى يَخِرَّ مَيْتًا، فَيَتَعَادُّ بَنُوا الأَبِ كَانُوا مِائَةً، فَلَايَجِدُونَه ُبَقِيَ مِنْهُمْ إِلَّا الرَّجُلُ الوَاحِدُ، فَبِأَيِّ غَنِيْمَةٍ يُفْرَحُ أَوْ أَيُّ مِيرَاثٍ يُقَاسَمُ.([11])

                ”تمہاری اس جنگ کے وقت شدید قسم کی واپسی ہوگی، مسلمان موت کی شرط لگائیں گے، کہ غالب ہوئے بغیر واپس نہیں آئیں گے، چنانچہ لڑتے رہیں گے یہاں تک رات آجائے گی، دونوں فریق واپس آجائیں گے کوئی بھی غالب نہیں ہوگا، شرط لگانے والا دستہ شہید ہو چکا ہوگا، مسلمان پھر موت کی شرط لگائیں گے، کہ غالب ہوئے بغیر واپس نہیں آئیں گے، چنانچہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ رات آجائے گی، اور دونوں فریق واپس آئیں گے، نہ یہ غالب ہوگا اور نہ وہ،، اور شرط لگانے والا دستہ شہید ہوچکا ہوگا، مسلمان پھر موت کی شرط لگائیں گے کہ غالب آئے بغیر واپس نہیں آئیں گے، چنانچہ شام تک لڑتے ہیں گے، دونوں فریق اپنی اپنی جگہوں میں واپس آجائیں گے، کوئی بھی گروہ غالب نہ ہوگا، اور شرط لگانے والا دستہ شہید ہوچکا ہوگا، جب چوتھا دن ہوگا، تو بچھے کچھے مسلمان جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا، اس روز ایسی زبردست جنگ ہوگی کہ اس سے پہلی ایسی جنگ نہیں دیکھی گئی ہوگی، میدانِ جنگ میں مرنے والوں کی لاشوں سے ایک پرندہ گزرنا چاہے گا، مگر ( لاشیں اتنی دور تک پھیلی ہوئی ہوں گی یا لاشوں کی بدبو اتنی ہوگی کہ) وہ مر کر گر پڑے گا، جنگ میں شریک ہونے والے لوگ اپنے اپنے کنبے کے آدمیوں کو شمار کریں گےتو ایک فیصد میدانِ جنگ سے بچا ہوگا، پھر فرمایا: بتاؤ! اس حال میں مالِ غنیمت لے کر کیوں کر دل خوش ہوگا، اور کیا ترکہ بانٹنے کو دل چاہے گا؟ “

                بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ایک روایتی جنگ ہوگی جو تیروں اور تلواروں کے ذریعے گھوڑوں اور خچروں پر لڑی جائے گی، لیکن ایسی جنگ جس میں99 فیصد لوگ کام آجائیں اور پرندہ جس کی لاشوں پر گزر نہ سکے کس طرح روایتی جنگ ہوسکتی ہے؟ روایتی اسلحے سے لڑی جانے والی جنگوں میں نقصان زیادہ سے زیادہ ایک تہائی ہوتا ہے، اور روایتی اسلحے کی وجہ سے کوئی پرندہ لاشوں پر گزرتے ہوئے نہیں گر سکتا، بہ ظاہر یہی ہے کہ یہ زہریلی گیسوں، آتشیں اسلحےاور تباہی پھیلانے والےخطرناک کیمیکل ہتھیاروں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہوگی جس کی وجہ سے پرندے بھی اس جگہ سے نہیں گزر سکیں گے۔

                ملحمه کے بارے میں ایک طویل حدیث کی ذیل میں جو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ عبارت منقول ہے:

ولَا تَكِلُّ سُيُوفُهُمْ ولَا نُشَّابُهُمْ وَلَا نَيَازِكُهُمْ وأَنْتُمْ مِّثْلُ ذٰلِكَ، قالَ: وَيَجْعَلُ اللهُ الدَّبَرَةَ عَلَيْهِمْ فَيَقْتُلُوْنَ مَقْتَلَةً لَايَكَادُ يُریٰ مِثْلُهَا وَلَا يُریٰ مِثْلُهَا حَتّیٰ أَنَّ الطَّيْرَ لَتَمُرُّ بِجَنَبَاتِهِمْ فَيَمُوتُ مِنْ نَّتْنِ رِيْحِهِمْ الخ.([12])

                ”ان کی تلواریں، تیر اور نیزک نہیں تھکیں گے اور تم بھی اسی طرح ہوں گے، پھر فرمایا: اللہ شکست ان کے اوپر مسلط کرے گا،  ایسا عظیم قتل عام ہوگا کہ اس جیسا نہیں دیکھا گیا ہوگا، نہ اس جیسا کبھی دیکھا جاسکے گا، یہاں تک کہ پرندہ بھی ان کی لاشوں پر سے گزرنے لگےتو ان کی بدبو کی وجہ سے مر کر گر جائے گا۔“

                ”نیازک“ٹوٹنے والے تارے (شہاب ثاقب) کے اس ٹکڑے کوکہا جاتا ہے جو جلنے کے بعد بھی زمین تک پہنچے یہ کبھی بہت حادثات اور نقصان کا سبب بنتا ہے، اس میں بہت واضح اشارہ ہے کہ اس جنگ میں فضائی بمباری، اور میزائل بھی استعمال ہوں گے، جو گویا نیزک کے مشابہ ہیں۔



([1])أخرجه الطبراني ۷۴۹۵، و ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد ۴/۲۵۱، و قال فيه حماد بن عبد الرحمن الكعكي عن خالد بن الزبرقان، و كلاهما ضعيف.

([2])أبو داود۴۲۹۲ ، رومیوں کے ساتھ یہ اتحاد ”پیچھے کے جس دشمن“ کے خلاف تھا اس سے مراد روس ہے، جغرافیائی لحاظ سے بھی روس مسلم ملکوں اور مغرب دونوں کے پیچھے ہے، نیز نعیم بن حماد کی الفتن کی روایت میں صراحتا ”ترک اور کرمان“ کا ذکر ہے، اور روسی اقوام ترکی نسل ہی کے ہیں، تصالحون الروم صلحا آمنا حتی تغزوا أنتم و هم الترك و كرمان، فيفتح الله لكم. الفتن رقم ۱۳۷۵

([3])الفتن ۱۲۵۲

([4])أخرجه الطبراني.

([5])رواه مسلم

([6])أبو داود.

([7])صحيح مسلم رقم ۲۴۵۲

([8])المستدرك ۸۳۶۷ ، الطبراني في الكبير ۴۲۳۱

([9])صحيح البخاريرقم ۳۱۷۶

([10])رواه مسلم رقم ۵۲۸۸

([11])(صحيح مسلم ۲۸۹۹، الطيالسي ۳۹۲، ابن أبي شيبه في المصنف ۱۵/۱۳۸، الحاكم في المستدرك ۴/۴۷۶، مسند أحمد ۱/۳۸۴-۳۸۵-۴۳۵)

[12]الفتن لنعيم بن حماد.

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟