امام مہدی کا ظہور تکوینی امر ہے یا تشریعی؟

                عموما جب حضرت امام مہدی کے ظہور کی بات کی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کا ظہور تو تکوینی معاملہ ہے، یعنی اس میں ہمارے کرنے کا کچھ نہیں ہے، جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی حضرت امام مہدی کو حرم لے جائیں گے، وہاں پہلے سے موجود کچھ لوگ آپ کی بیعت کریں گے اور یوں آپ خلیفہ بن جائیں گے۔

حالانکہ احادیث سے اس نقطہ نظر کی تردید ہوتی ہے، صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس امت میں ایک گروہ مسلسل باقی رہے گا جو حق پر قائم رہے گا، یہاں تک کہ دجال نکل آئے تو یہ اُس کے ساتھ لڑیں گے۔

لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِن أُمَّتِي يُقاتِلُونَ علی الحقِّ ظَاهِرِينَ علی مَن نَاوَاهُم حَتّیٰ يُقَاتِلَ آخِرُهُم المَسِيحَ الدَّجَّال. (أخرجه أبو داود فيی الجهاد رقم: ۲۴۶۷، مسند أحمد رقم: ۱۹۹۴۳، الحاكم رقم: ۲۳۹۲،

میری امت میں مسلسل ایک گروہ حق پر قائم ہوکر لڑتا رہے گا، اپنے مخالفین پر غالب رہے گا، یہاں تک کہ ان کا آخری حصہ مسیح دجال سے لڑے گا۔

اور مسند احمد کی ایک رویت میں ہے:

لا تزالُ طائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي علی الحقِّ ظَاهِرِينَ علیٰ مَنْ نَاوَاهُم حَتّیٰ يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ تَبَارَكَ و تَعَالی وَ يَنْزِلُ عِيسیَ ابنُ مَرْيَمَ عَلَيهِ السَّلام. (مسند أحمد ۱۹۸۷۴)

ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ اس طائفہ منصورہ کا آخری گروہ دجال سے لڑے گا، اور یہ کہ امر اللہ اس سے پہلے برپا ہوچکا ہوگا، اور وہ امر اللہ امام مہدی ہیں۔ دوسری سے معلوم ہوا کہ امر اللہ اور نزول عیسیٰ علیہ السلام میں ربط اور تعلق موجود ہے، دونوں کو اس روایت میں جمع کیا گیا ہے، او حقیقت میں بھی دونوں اکٹھے ہوں گے، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے ہی نازل ہوں گے تو وہ حضرت امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

یعنی یہ طائفہ منصورہ حضرت امام مہدی تک باقی رہے گا، ان کا جہاد حضرت امام مہدی تک جاری رہے گا اور جب امام کا ظہور ہوگا تو وہ بھی آپ کے ساتھ مل کر شامل ہوجائیں گے، آپ سے پہلے یہ گروہ آپ جہاد کے لئے میدان کی ہمواری کا کام کرچکے ہوں گے۔ کیوں کہ آپ کا دور عظیم الشان جنگوں کا ہوگا۔ گویا طائفہ منصورہ آپ کے لئے تمکین کا ذریعہ بنے گا۔ لہذا جہاد کے میدان میں مشغول رہنا بھی بالواسطہ حضرت امام مہدی کی نصرت میں داخل ہے۔

نیز قحطانی کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ آپ کے لئے راستہ ہموار کرے گا۔

يَخْرُجُ من وَرَاءِ النَّهرِ يُقَالُ لَهُ الحَارِثُ بن حرّاث، علیٰ مقدمته رجلٌ يُقَالُ له منصور، يُوَطِّئُ أو يُمَكِّنُ لآلِ محمد كمَا مَكَّنَتْ لِرَسولِ الله ﷺ قُرَيشٌ، وَجَبَ علی كُلِّ مؤمن نصرُه أو قال إجابتُه. (أخرجه أبوداود، والبيهقي والنسائي، و رواه الشيخ أبو محمد الحسين في كتابه المصابيح)

ماوراء النہر کے علاقے سے ایک شخص نکلیں گے جنہیں ”الحارث بن حرّاث“ کہا جاتا ہوگا، اُن کے مقدمہ پر ایک شخص ہوں گے جنہیں منصور کہا جائے گا، جو آل محمد کے لئے راستہ ہموار کریں گے، جس طرح قریش نے رسول اللہ ﷺ کے لئے راستہ ہموار کیا، ہر مومن پر اُن کی نصرت (یا دعوت کو قبول کرنا) لازم ہے۔

ماوراء النہر سے نکلنے والے یہ شخص شیخ اسامہ بن لادن تھے، کیونکہ الحارث شیر کا نام ہے، اور اسامہ بھی شیر کے ناموں میں سے ایک نام ہے، حرّاث، حضرموت میں ایک طبقہ ہے جس کی طرف شیخ منسوب تھے کیوں کہ آپ اصلا یمنی تھے، سو آپ ہی الحارث بن حرّاث تھے، آپ نے افغان جہاد کے بعد وہ لشکر تشکیل دے دیا جو آل محمد یعنی حضرت امام مہدی کے لئے راستے کی ہمواری کا کام کرنے والی ہے، یہ لشکر اب عالم اسلام کے مختلف خطوں میں پھیل چکا ہے، اور جہاد کے میدان ان کی برکت سے آباد ہیں، یہی حضرات ہی امام کے ساتھی بنیں گے۔ تمکین کے بغیر حضرت امام مہدی کیسے خلافت قائم کرسکتے ہیں؟ پھر ہر مسلمان پر ان حضرات کی نصرت کرنے کو واجب بھی قرار دیا گیا۔

يخرجُ قومٌ مِّن قِبَلِ المشرقِ فيُوَطِّئُونَ لِلمَهدِيِّ سُلطَانَه.

(رواه ابن ماجه ۴۰۸۸، والطبراني في المعجم الأوسط ۲۸۵، والبزار في مسنده ۳۷۸۴،)

مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی جو امام مہدی کے لئے راستہ ہموار کرے گی۔ یہ مشرقی خطہ خراسان اور ہے جہاں کے ایک شہر ”طالقان“ کا ذکر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:

عن امير المؤمنين عليِّ بن أبي طالبٍ رضي الله عنه قال: ويحا للطالقانِ فإِنَّ لله عزَّ و جلَّ بها کُنوزًا ليستْ من ذهبٍ و لا فضَّةٍ و لكن بها رجالٌ عرفُوا الله حقَّ معرِفَتِه و هم أنصار المهديِّ آخرَ الزَّمانِ . (کنز العمال، عقد الدرر ۱۸۷، كنز العمال ۱۴/ ۵۹۱)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت خوبی ہے طالقان کے لئے، یہاں اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں جو سونے یا چاندی کے نہیں ہیں بلکہ ایسے مرد ہیں جنہوں نے اللہ کی معرفت اس طرح حاصل کی ہے جیسا کہ اس کاک حق ہے۔ یہی لوگ مہدی آخر الزمان کے مددگار ہیں۔

کنز العمال میں حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک دن اپنی مجلس میں ارشاد فرمایا:

و يَعْمَلُ عملَ الجَبَابِرَةِ الأولیٰ فَيَغْضَبُ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ لكل عمله، فَيَبعَثُ عليه فتی من قِبَلِ المشرق يَدعو إلی أهل بيت النبي، هم أصحاب الرايات السود المستضعفون، فيُعِزُّهم الله و يُنزِلُ عليهم النصرَ، فلا يُقَاتِلُهم أحدٌ إلا هَزَمُوه، وَ يَسِيْرُ الجَيشُ القَحْطَانِيُّ حتّیٰ يَسْتَخْرِجُوا الخَلِيْفَةَ وَ هُوَ كَارِهٌ خَائِفٌ. (كنز العمال)

یہ سفیانی پہلے جابروں جیسا عمل کرے گا، اللہ آسمان ےسے اُس کے ہر عمل پر غضبناک ہوگا، تو اُس پر مشرق کی طرف سے ایک جوان بھیجے گا جو نبی ﷺ کے اہلِ بیت کی طرف دعوت دے گا،یہ کالے جھنڈوں والے ہوں گے جنہیں کمزور سمجھا جاتا ہوگا، اللہ انہیں عزت سے نوازے گا اور ان پر اپنی نصرت اتارے گا، جو بھی ان سے لڑے گا انہیں شکست مل جائے گی۔ قحطانی کا لشکر چلتا رہے گا یہاں تک کہ یہ خلیفہ (مہدی) کو اس حال میں نکالیں گے کہ وہ خوفزدہ ہوگا اور بیعت کئے جانے کو پسند نہیں کرتا ہوگا۔

یہ قحطانی بھی شیخ اسامہ ہی تھے جن کا بنایا ہوا کالے جھنڈوں کا لشکر حضرت امام مہدی کے لئے تمہید کا کام کر رہا ہے، اور یہ امام کے ظہور تک چلتا رہے گا۔ گویا ان کی ذمہ داری یہی ہے کہ یہ حضرت امام مہدی کے ظہور تک چلتے رہیں تاکہ جہاد کی فضا قائم رہے، اور امام کے راستے میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے نقل کیا ہے کہ:

يخْرُجُ من خُرَاسانَ راياتٌ سودٌ لا يَرُدُّهَا شيءٌ حَتّیٰ تُنْصَبَ بِإِيْلِيَاءَ. (رواه أحمد في المسند ۱۴/۳۸۳، والترمذي في السنن ۲۲۶۹، والطبراني في المعجم الأوسط ۴/۳۱، والبيهقي في دلائل النبوة ۶/۵۱۶، وابن عساكر في تاريخ دمشق ۳۲/۲۸۱ و نعيم بن حماد في الفتن ۱/۲۱۳)

خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، اور انہیں کوئی چیز واپس لوٹا نہیں سکے گی یہاں تک کہ انہیں بیت المقدس میں گاڑ دیا جائے۔

ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے، قحطانی (شیخ اسامہ) کے کے لگائے ہوئے جھنڈے بیت المقدس تک پہنچ کر رہیں گے، اور یہ ظاہر ہے کہ بیت المقدس کی فتح حضرت امام مہدی کے ہاتھوں لکھی  ہے، تو معلوم ہوا کہ کالے جھنڈوں والے یہ مردانِ باصفا حضرت امام مہدی کے انصار ہوں گے، آپ کی بیعت کریں گے، آپ کا ساتھ دیں گے، قیادت کی شہادت کے بعد ان کا قائد امام مہدی ہوگا اور اُن کے ساتھ مل کر یہ بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوں گے۔

علمائے سبعہ کی روایت میں بھی صاف مذکور ہے کہ ان علماء میں سے ہر ایک کے ہاتھ پر تین سو تیرہ آدمیوں نے بیعت کر رکھی ہوگی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب حضرت امام مہدی کے ظہور اور بیعت کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے، اور انہوں نے بیعت سے پہلے ہی بیعت کر رکھی ہوگی، اور جب حالات آپ کے ظہور کے قریب ہونے کی گواہی دیں گے تب یہ سب متحرک ہوجائیں گے، اور امام کو ڈھونڈنے حرم شریف جائیں گے۔

اگر امام مہدی کا ظہور محض تکوینی معاملہ ہوتا تو یہ علمائے امت کبھی بھی امام کی تلاش میں نہ نکلتے، نہ ہی ایسے خوفناک حالات میں جان کا خطرہ مول لے کر حرم شریف صرف اسی مقصد کے لئے جاتے۔ جہاں سفیانی کی فوج ان کے پیچھے پڑی ہوگی اور امام کے شبہے میں بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے سبھی کو گرفتار کیا جارہا ہوگا۔

حضرت امام مہدی کی ذات کے متعلق جتنی نشانیاں روایات و آثار میں منقول ہیں، آپ کے ظہور سے پہلے زمان و مکان کے متعلق جو مختلف علامتیں روایات میں مذکور ہیں جن کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں ہیں  یہ سب اہلِ علم خصوصا مہدویات سے دلچسپی رکھنے والوں کو ان صفات کی حامل شخصیت کو تلاش کرنے کی کوشش کا پیغام دے رہے ہیں۔ تاکہ حقیقی مہدی کی پہچان آسان ہو، اور جھوٹے مدعیانِ مہدویت کی وجہ سے امت گمراہ نہ ہو۔ ورنہ اس سے پہلے جتنے مدعی گزرے ہیں ان کے پاس امام مہدی کے بارے میں سطحی علم تھا جس کی وجہ سے وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا ذریعہ بھی بن گئے۔ لہذا یہ سارے آثار اس کی دلیل ہیں کہ مہدی کا ظہور تشریعی معاملہ ہے تکوینی نہیں ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟