صبح کاذب سے صبح صادق تک

 

1979میں حرمِ مکی میں پیش آنے والا سانحہ


جہیمان بن سیف العتیبی کون تھا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے اس کی تحریک کا کیا تعلق تھا




                موجودہ مملکت سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن آل سعود نے جب انیسویں صدی کے آغاز میں نجد وحجاز میں خلافت عثمانیہ کے خلاف جزیرۃ العرب میں   اپنی سلطنت کو مضبوط بنانا شروع کیا تو عموما صحرائی قبائل نے اس کا ساتھ دیا۔ ان میں تین قبیلے اور ان کے سربراہ معروف ہوئے۔ اور اس لشکر کی اکثریت انہیں قبائل سے تھی۔:  (۱)  ارطاوی قبیلہ اور اس کے امیر فیصل الدویش ، (۲) قبیلہ عجمان اور اس کے شیخ ضیدان بن حثلین  (۳) قبیلہ عتیبہ اور اس کے شیخ سلطان بن بجاد ۔

                مختلف عرب قبائل کے افراد کو توحید کے نام پر اکٹھا کیا گیا اور انہیں ترغیب دی گئی کہ عرب میں مزارات و قبور کے نام پر شرک پھیل چکا ہے اور کثرت سے لوگ اس میں مبتلا ہوچکے ہیں، اس لئے ان کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے أعراب (بدوری طرزِ زندگی گزارنے والے لوگوں) کو اکٹھا کیا گیا، ان کی تعلیم و تربیت اور رہائش کے لئے بستیاں بسائی گئیں۔  چونکہ یہ لوگ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر وہاں آباد ہوجاتے تھے اس لئے ان بستیوں کو ”ہجر“ کہا گیا۔ ہجر کے نام پر ان بستیوں کی آباد کاری 1911سے شروع ہوئی، یہ بستیاں پورے جزیرۃ العرب میں دو سو مقامات تک پھیل گئیں، ان بستیوں میں رہنے والے بدویوں سے ایک قبائلی لشکر منظم ہوا جسے ”اخوان من اَطاع اللہ“ کا نام دیا گیا، جسے مختصرًا ”اخوان مَنطاع اللہ“ کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کو ایک دینی قائد کی صورت میں دیکھتے تھے۔  

                قبیلہ عُتیبہ کے ”جہیمان بن محمد بن سیف الضان“   نے بھی اُن ”ہجر“ ( بستیوں) میں سے ایک میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس ہجرت کا نام ”ساجر“ رکھا گیا، اس میں تمام افراد  بدوی لوگ تھے،  انہوں نے سلطان عبدالعزیز کے ساتھ مل کر سلطان بن بجاد کی قیادت میں جنگیں لڑیں، یہ لوگ بن بجاد کو ”سلطان الدین“ کہتے تھے۔ یہ 29مارچ 1929 کی بات ہے۔ جزیرۃ العرب کا اکثر حصہ انہی دیہاتیوں کی وجہ سے سلطان عبدالعزیز کو ملا۔ توحید کی بنیاد پر منظم ہونے والا یہ لشکرعراق کی جانب بڑھنا چاہتا تھا،  لیکن جب سلطان عبدالعزیز کا برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہوا اور سعودی مملکت کی حدود برطانیہ کی جانب سے طے ہوگئیں، اور انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ملی، اور سلطان عبدالعزیز نے انہیں منع کیا،  تو انہوں نے سلطان کے خلاف واقعہ ”سبلہ“ میں بغاوت کی۔  ”اخوان من طاع اللہ “ کے کارکن،  فیصل بن سلطان الدویش اور سلطان بن بجاد کی قیادت میں سلطان عبدالعزیز کے خلاف ”زلفی“ شہر کے شمال مشرق میں ”روضۃ السبلۃ“ میں سامنے آئے۔  اس معرکے میں اخوان کو شکست ہوئی اور دُویش زخمی ہوئے، دویش کو سلطان عبدالعزیز نے معافی دی جبکہ سلطان بن بجاد کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہوا لیکن پھر اسے گرفتار کیا گیا، اور ریاض کی جیل میں اس نے اپنی باقی زندگی گزاری اور وہیں اس کی وفات ہوئی۔([1])

 اس واقعے کی وجہ سے اخوان بالخصوص اہلِ ساجر میں سعودی حکومت کے خلاف بغاوت اور سرکشی کے احساسات پیدا ہوئے، انہی احساسات میں جہیمان کی پرورش ہوئی([2])۔  اس کی  نفسیات پر اس کا گہرا اثر تھا۔ جہیمان کے والد، سلطان بن بجاد کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے،ان کی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت تھی کہ سلطان عبدالعزیز کے آگے تسلیم نہ ہوا جائے،  اسی وجہ سے جب وہ ۱۳۹۸ ؁ھ میں پہلی مرتبہ گرفتار ہوا تو حکومت کے آگے تسلیم ہونے کو تیار نہیں ہوا، کیونکہ وہ اسے غدار سمجھتا تھا، جہیمان کے ذہن میں یہ بات بھی بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا قبیلہ  سلطان بن بجاد کا انتقام نہیں لے سکا۔ اس کے دل میں اس طرح کے خیالات تھے جن کا وہ وقتا فوقتا اظہار کیا کرتا تھا۔ ([3])

مملکت سعودی عرب میں اس زمانے میں آزاد خیالی کی فضا تھی،  سینما گھرقائم تھے، عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت تھی(جیسا کہ آج محمد بن سلمان اسی ماحول کو واپس بحال کرنے کی کوشش میں ہے) ان جیسے بہت سارے امور جہیمان اور اس کے ساتھیوں کے لئے قابلِ نکیر تھے۔ وقتا فوقتا یہ لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ انہوں نے الجماعة السلفية المحتسبة کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی تھی۔ ([4])

                حکومتی آزاد خیالی، عمومی بگاڑ کا ماحول، جماعت کے اخوان کا بدویانہ ذہن اورعلامات قیامت کے متعلق مروی احادیث کی ناقص فہم کی وجہ سے حرم مکی میں یہ حادثہ رونما ہوا۔  ان حالات نے ان کو یہ راستہ دکھایا، یہ لوگ سمجھتے تھے کہ  ہم آخری زمانے میں جی رہے ہیں، جب حضرت امام مہدی کا ظہور ہوگا اور جو نبوی منہج پر خلافت کو قائم کریں گے اور دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ کریں گے۔([5]) چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے کوششیں شروع کیں۔

                ۱۳۹۹ھ  میں جماعت میں خوابوں کے متعلق باتیں شروع ہوگئیں اور یہ بحث بھی کہ ہم آخری زمانے میں جی رہے ہیں، ایک منظر نامہ یہ بن رہا تھا کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں امام مہدی کا ظہور ہوگا، جن کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے متعلق دیکھے جانے والے خواب تواتر کے ساتھ نظر آئیں گے، اس مسئلے نے اخوان میں ایک اجتماعی جنون کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ جہیمان نے علاماتِ قیامت اور امام مہدی کے بارے میں ایک رسالہ بھی لکھا جس میں وہ  لکھتے ہیں۔

                ”میں نےفتنوں اور علاماتِ قیامت کے متعلق صحیح احادیث کو جمع کرنے میں اپنی کوشش صرف کر دی ہے، کیونکہ آج اس کی ضرورت زیادہ ہے۔ اور میں نے زمان و مکان کے لحاظ سے اس کو ایک ترتیب دی ہے۔ ساتھ ساتھ اس کا بھی خیال رکھا ہے کہ نصوص کے درمیان تطبیق دی جائے، اور اسے ایک مکمل شکل میں پیش کیا جائے تاکہ اس سے پورا فائدہ پہنچے۔ “ ([6])

اس کے بعد جہیمان نے ان روایات کو جمع کرنے کی وجہ بیان کی ۔

                ”اس موضوع پر بہت سارے اہل علم نے پہلے لکھا ہے، لیکن میں نے ان میں دو اہم باتیں ملاحظہ کیں۔

                (۱): اُن حضرات نے صحیح روایات پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ انہوں نے صحیح و ضعیف دونوں قسم کی روایات جمع کی ہیں، حالانکہ ہمارے دین میں کسی عقیدے و عمل کے لئے روایت کا صحیح ہونا ضروری ہے۔

                (۲): ان حضرات نے احادیث و روایات کی دلالت  میں ربط اور واقع پر ان کی تطبیق کا لحاظ نہیں کیا ہے۔ اسی وجہ سے قاری کو وہاں روایات میں کچھ تعارض نظر آتا ہے۔ بلکہ بعض جگہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، باوجود یہ کہ اس معاملے میں وہ معذور تھے کیونکہ انہیں ان حالات سے واسطہ نہیں پڑا جن سے ہمیں پڑا ہے۔ (ص ۳) “

                انہیں ایک ایسی شخصیت بھی ملی جس نے ان کا مقصود آسان بنادیا ، یہ  محمد بن عبداللہ قحطانی تھے جو  جہیمان کے بہنوئی تھے، ان حضرات کا خیال تھا کہ یہی امام مہدی ہیں ، کیونکہ صحیح روایات میں جو علامات منقول ہیں وہ ان میں موجود ہیں۔مثلا امام مہدی کا نام نبی کریم ﷺ کے نام  کی طرح، والد کا نام نبی کریم ﷺ کے والد کے  نام کی طرح ہوگا۔ نسبا قریشی اور حسینی ہوں گے۔ ([7])


محمد بن عبد اللہ القحطانی


                اس کے بعد ان لوگوں نے ان روایات کی روشنی میں (جن میں امام مہدی کی رکن اور مقامِ ابراہیم کے درمیان بیعت کرنے کا ذکر ہے) حرم شریف پر قبضہ کر کے بیعت لینے کا منصوبہ بنایا۔

                اس مقصد کے لئے انہوں نے پانی کے دو ٹینکر رتیار کر رکھے تھے۔ کیونکہ پانی کے ٹینکر حرم آتے جاتے تھے، اس لئے اندر بھیجتے وقت کسی کو شک نہیں گزرا۔ ایک ٹینکر میں کھجور اور دوسرے میں اسلحہ ذخیرہ  کیا گیا تھا۔ اخوان کے بعض ساتھی چھوٹا اسلحہ اپنے ساتھ بھی لے کر گئے تھے، جسے حرم کے تہہ خانوں میں چھپا دیا گیا تھا۔ کچھ اسلحہ ان تابوتوں میں چھپا دیا گیا تھا جنہیں جنازوں کے بہانے اندر لے جایا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر کو عورتوں کے جنازے کہہ کر لے جایا گیا تاکہ محافظین میں کوئی اسے کھول کر نہ دیکھے۔

بیعت کا واقعـہ

                یہ یکم محرم ۱۴۴۰ کی ایک صبح تھی،  حرم مکی کے امام شیخ محمد السبیّل نے فجرکی نماز پڑھانی شروع کی، جہیمان کے ساتھی حرم کے دروازوں پر منقسم ہوکر کھڑے تھے، اور جیسے ہی امام نے قراءت شروع کی تو انہوں نے دروازوں کو بند کرنا شروع کر دیا، اس دوران ان کی ایک غیر مسلح محافظ سے تلخ کلامی ہوئی اور اخوان میں سے ایک شخص نے فائرنگ کی جس کا وہ خود شکار ہوگیا، اور اسے پہلا شہید قرار دیا گیا۔

                امام نے جیسے ہی نماز پوری کی اور نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ادھر سے انہوں نے مائیکروفون لے کر حالات کو کنڑول کرنا شروع کر دیا، امام صاحب نے انہیں نصیحت کرنی چاہی تو انہیں ایک کمرے میں قید کر دیا گیا، پھر ”خالد یامی“ نے ایک لکھا ہوا خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ جس میں اپنے اہداف و مقاصد اور اس عمل کا جواز ذکر کیا۔ خطبے کے دوران جابجا جہیمان تبصرہ کرتا، ساتھیوں کو ہدایات دیتا۔ اس کے بعد حرم میں موجود اپنے ساتھیوں میں اسلحہ تقسیم کرایا گیا۔ محمد بن عبداللہ قحطانی رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوگئے، سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر جہیمان نے بیعت کی، پھر وہاں ارد گرد موجود اس کے باقی ساتھیوں نے بیعت کی۔ اس کے بعد نور الدین بن بدیع الدین بن احسان اللہ شاہ راشدی، پاکستانی و ہندوستانی لوگوں کے لئے خطبے کا اردو ترجمہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ ان کے ہاتھ میں پستول تھا جسے وہ لہرا رہے تھے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی بات پوری کی تو کچھ پاکستانی کھڑے ہو کر نعرے لگانے لگے، مہدی، مہدی، مہدی۔

                جو لوگ اس وقت حرم میں موجود تھے انہوں نے بیعت کی ،اور جو میناروں پر، چھتوں پر، دروازوں پر دفاع پر مامور تھے اور یہاں نہیں آسکتے ،ان کے پاس محمد بن عبداللہ خود جا کر بیعت لینے لگے اور انہیں صبر کی تلقین کرنے لگے۔ 


جہیمان خطبہ دیتے ہوئے


                پہلے تین دن محمد بن عبداللہ قحطانی دفاع پر مامور پہریداروں پر سے ہو کر گزرتے ان سے بیعت لیتے، ثابت قدمی کی تلقین کرتے، ،  اس کے بعد ان کے بارے میں خبریں منقطع ہوگئیں اور ان کا کچھ پتہ نہ چل رہا تھا۔ کوئی  جہیمان کو یہ کہتا کہ محمد بن عبداللہ زخمی ہوگئے ہیں یا  قتل ہوچکے ہیں تو جہیمان  سخت غصے میں آتا اور کہتا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ مہدی اپنا پیغام پہنچانے اور نافذ کرنے  سے پہلے قتل ہوجائیں، وہ محصور ہوچکے ہیں، تین دن کے بعد کسی نے محمد بن عبداللہ کو نہیں دیکھا، اور اس کے محصور ہونے،  قتل یا زخمی ہونے کے بارے میں مختلف قسم کی خبریں پھیلنے لگیں۔

فیصل محمد فیصل نامی اخوان کے ایک ساتھی نے جہیمان کو اس پر آمادہ کرنا چاہا کہ ہمیں سعودی حکومت کو اپنا آپ حوالہ کرنا چاہئے، کیونکہ امام  مہدی کا انجام ہمیں معلوم نہیں ہے، اس لئے حرم میں فائرنگ کرنے سے بچنا چاہئے، کیونکہ یہاں تو اسلحہ اٹھانا ہی نہیں چاہئے چہ جائیکہ فائرنگ کی جائے۔ اس پر اسے غصہ آیا اور کہنے لگا کہ یہ بات اخوان میں احساسِ شکست خوردگی پیدا کرے گی۔ امام مہدی قتل نہیں ہوئے نہ وہ قتل ہوسکتے ہیں جب تک کہ باقی علامات ثابت نہ ہوجائیں۔ اس لئے اب ہم اس لشکر کے زمین میں دھنسنے کے انتظار میں ہیں جو امام مہدی سے مقابلے کے لئے تبوک سے آرہا ہے۔ امام مہدی حرم ہی میں کہیں محصور ہوچکے ہیں  اور اب ہم محاصرہ توڑ دیں گے۔

جہیمان ساتھیوں کو کہتا  کہ بہت تواتر کے ساتھ خواب دیکھے جارہے ہیں کہ تبوک سے آنے والا لشکر زمین میں دھنس چکا ہے۔ اس کے دو دن بعد اخوان میں سے ایک ساتھی آیا اور خوشخبری سنا کر کہنے لگا کہ ہمارا فلاں ساتھی جو سچا اور پرہیزگار ہے اور وہ فرنٹ لائن پر متعین ہے اس نے گزشتہ رات فوج کے پاس موجود ریڈیو سے خود یہ خبر سنی جو بہت واضح الفاظ میں یہ خبر دے رہا تھا کہ تبوک سے آنے والا لشکر جہاں موجود ہے اس مقام پر زلزلہ آیا ہے اور وہ زمین میں دھنس چکا ہے، اور لشکر کا کافی نقصان ہوچکا ہے۔ اس پر اخوان نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ ([8])

                یہ لوگ روزانہ کوئی نہ کوئی خواب دیکھتے یا کوئی نہ کوئی ایسی خبر سنتے جو امام مہدی یا زمین میں دھنسنے والے لشکر سے متعلق ہوتی یا جس میں صبر و ثابت قدمی کی تلقین ہوتی۔ میرا گمان یہ تھاکہ یہ پورا گروہ ایک اجتماعی جنون اور خبط کا شکار ہو چکا تھا۔  خصوصا آخری سات ایام کے دوران جب وہ حرم کے تہہ خانوں میں محصور ہوچکے تھے۔ جہیمان اپنے ساتھ چند ساتھیوں کو لیکر نکلتا اور تہہ خانے کے دروازوں کے پاس فائرنگ کرتا۔ ان گنے چنے لوگوں کا مقابلہ باہر موجود ایک منظم فورس سے تھا، اس لئے لڑائی میں اُن کا پلڑا جھک جانا یقینی تھا، چنانچہ پہلے میناروں پر سے لڑائی ختم ہوکر چھتوں پر آگئی، اس کے بعد دوسری منزل پھرنچھلی منزل سے ہوتے ہوئے تہہ خانوں کے مختلف کمروں تک آئے، آخری دن یہ لوگ ایک کمرے میں محصور ہوگئے، چھتوں سے سوراخ کئے گئے، اور آنسو گیس کے گولے ان پر پھینکے گئے۔ ان سب کے دوران لاؤڈ سپیکر سے بار بار ہتھیار ڈال کر اپنا آپ حوالہ کرنے کے اعلانات نشر ہوتے رہے۔ ([9])

حـادثۂ حرم امام مہدی کے لئے تمہید تھا

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام مہدی سے پہلے حرم میں ایسا ایک واقعہ ہوگا، کہ جب وہاں ایک شخص پناہ پکڑے گا اور یہ حرم شریف کی بے  حرمتی کا ذریعہ بنے گا۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يُبايَع لرجلٍ ما بين الركن والمقام ولن يَّستَحِلَّ البيتَ إلا أهلُه فإذا استَحَلُّوه فلا يُسأَلْ عن هلكة العرب ثم تأتي الحبشةُ فيُخرِّبونَه خرابا لا يُعَمَّر بعده أبدا وهم الذين يَستَخرِجون كنزَه.([10])

                ” ایک شخص کی رکن (حجر اسود) اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی، اور بیت اللہ کی بے حرمتی کو اس کے اہل ہی حلال سمجھیں گے۔ چنانچہ جب وہ اسے حلال سمجھیں گے تب عربوں کی ہلاکت کا نہ پوچھا جائے، اس کے بعد حبشی آئیں گے اور اسے ایسا ویران کریں گے جس کے بعد یہ کبھی آباد نہیں ہوسکے گااور یہی وہ لوگ ہوں گے جو اس کے خزانے کو نکالیں گے۔“

                حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ پناہ پکڑنے والا یہ  شخص غیر معروف شخص ہوگا، کیونکہ رجل کا لفظ نکرہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وہ علامات و صفات ذکر نہیں کی ہیں، جو امام مہدی کے بارے میں تفصیلا مروی ہیں۔  یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد بیت اللہ کی بےحرمتی کو حلال سمجھا جائے گا اور ایسے امور پیش آئیں گے جو اس کی تعظیم کے خلاف ہوں گے۔ اور بے حرمتی کا ارتکاب کرنے والے باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ حرم کے والی یا وہیں کے رہنے والے ہی ہوں گے۔ تیسری بات حدیث میں یہ ہے کہ اس کے بعد عربوں کی ہلاکت و بربادی ہوگی یا بہت قریب آجائےگی۔

تطبیق

 جس شخص کی بیعت کا ذکر ہے بہ ظاہر اس کا مصداق جہیمان اور ان کے بہنوئی محمد بن عبداللہ قحطانی ہیں۔ جنہوں نے 21 نومبر 1979 / یکم محرم ۱۴۰۰ھ کو حرم مکی پر قبضہ کر کے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے بیعت لی۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی سن کے لحاظ سے ایک صدی مکمل ہوگئی ہے،  اور عالم اسلام خصوصا جزیرۃ العرب میں تجدید و احیائے دین کے لئے ایک مجدد کی ضرورت ہے،  کیونکہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے شروع میں ایک مجدد بھیجے گا جو دین کی تجدید کا کام کرے گا۔ لہذا اِنھوں نے امام مہدی کے موجود ہونے کا دعوی کر کے لوگوں سے ےبیعت لی۔ حرم مکی کو قبضے میں لینے کے بعد ان کی سعودی فورسز سے لڑائی شروع ہوئی جنہوں نے تین دن تک حرم کا محاصرہ کیا، فائرنگ کے تبادلے میں اخوان کے کارکن اور کئی سارے نمازی شہید ہوگئے، جن میں خود محمد بن عبداللہ بھی شامل تھے، 16 دن کی لڑائی کے بعد سعودی فورسز نے فرانسیسی، امریکی اور پاکستانی کمانڈوز کی مدد سے حرم کو کلئیر قرار دیا اور یوں بیت اللہ اور حرم مکی کی حرمت خود وہاں کے رہنے والے عرب حکام کی جانب سے ہی پائمال ہوگئی۔

                اس کے بعد عربوں کی ہلاکت و بربادی کی ایک ناقابلِ بیان داستان شروع ہوئی، چنانچہ ایران عراق جنگ ہوئی، جو دس سال تک جاری رہی،  وہ ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ 90 کی دہائی میں خلیج کی پہلی جنگ شروع ہوئی، اس کے اثرات سے ابھی عالمِ عرب سنبھلا نہیں تھا کہ نائن الیون کے واقعات ہوئے اور اس کے بعد عراق، شام، مصر، یمن اور دوسرے عرب ملکوں میں عربوں کا وہ قتلِ عام ہوا جس نے فتنہ تاتار کی یاد تازہ کی۔ نائن الیون کے چند ہی سال بعد 2011 میں عرب بہار کے خزان نے عربوں کا سارا خطہ اپنی لپیٹ  میں لے لیا، جو تاحال اسی طرح متاثر ہے۔  حدیث کے مطابق عربوں کی یہ بربادی جاری رہے گی یہاں تک کہ دجال کے وقت عرب اقوام کی تعداد بہت قلیل رہ جائے گی۔


عربوں کی ہلاکت کے آثار

عربوں کی ہلاکت کے آثار

عربوں کی ہلاکت کے آثار


                ”عربوں کی ہلاکت کا سوال نہ کیا جائے“ اس میں بالواسطہ اس جانب بھی اشارہ ہے کہ بیت اللہ میں پناہ پکڑنے والا یہ شخص امام مہدی نہیں ہوگا کیونکہ روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور عربوں کی تباہی کے بعد ہوگا نہ کہ اس سے پہلے، کیونکہ آپ کے ظہور کے بعد اللہ کی یہ زمین عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دی جائے گی جس طرح یہ ظلم و زیادتی سے بھری ہوئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :

لَا يخرُجُ المهديُّ حتّیٰ يُقتَلَ ثُلثٌ و يَموتَ ثُلثٌ وَ يَبْقیٰ ثلُثٌ . ([11])

”امام مہدی کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ ایک تہائی لوگ قتل نہ ہوجائیں، ایک تہائی لوگ مر نہ جائیں اور ایک تہائی باقی نہ رہیں۔“

جہیمان اور قحطانی کے بعد قریب ہی حضرت امام مہدی کے ظہور کی جانب کئی روایات میں اشارات موجود ہیں۔

                عن أرطاة قال بلغني أن المهدي يعيش أربعين عاما ثم يموت علی فراشه ثم يخرج رجل من قحطان مثقوبَ الأذنين علیٰ سيرة المهدي بقاءُه عشرين سنةً ثم يموت قتلا بالسلاح ثم يَخرج رجل من أهل بيت النبي صلی الله عليه وسلم مهدي حسن السيرة يفتح مدينة قيصر و هو آخر أمير من أمة محمد صلی الله عليه وسلم ثم يخرج في زمانه الدجال و ينزل في زمانه عيسی بن مريم عليه السلام.([12])

                ”ارطاۃؒ نے فرمایا کہ: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ مہدی چالیس سال تک زندہ رہیں گے،  اس کے بعد ان کا اپنے بستر پر انتقال ہوگا، پھر ایک قحطانی نکلے گا جس کے کانوں میں سوراخ ہوں گے، مہدی کی سیرت پر ہوگا، اس کی زندگی بیس سال ہوگی، اور اسے اسلحے سے قتل کیا جائے گا، اس کے بعد نبی ﷺ کے اہلِ بیت میں سے ایک شخصیت کا ظہور ہوگا،  یہ ہدایت یافتہ اور اچھی سیرت والے ہوں گے، جو قیصر کے شہر کو فتح کریں گے ،  امتِ محمد میں سے آخری امیر ہوں گے، انہی کے زمانے میں دجال نکلے گا اور انہی کے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ “

                اس روایت میں پہلے مہدی سے مراد عبدالعزیز بن محمد بن سعود ہیں جو سعودیہ کی پہلی سلطنت کے بانی تھے، توحید کے پھیلانے والے اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کے مددگار تھے۔ ان کی ولادت ۱۱۳۲ ؁ھ کو ہوئی، اور ان کی حکومت ۱۱۷۹ ؁ھ سے لے کر ۱۲۱۸ ؁ھ یعنی ۳۹ سال تک رہی، (یعنی چالیس سال تک حکومت کی) ایک عراقی شیعہ نے آپ کو دورانِ نماز مسجد میں مارا جس کی وجہ سے آپ زخمی ہوئے اور اپنے بستر پر انتقال کر گئے۔ حسین بن ابی بکر بن غنام نے ”تاریخ ابن غنام“ میں اور ابن جنید جیسے  علما نے لکھا ہے کہ یہ عبدالعزیز اپنے زمانے کے مہدی (ہدایت یافتہ شخصیت) تھے۔ ان کو یہ لقب عطا ہونا اتفاقی نہیں تھا، گویا حدیث کی پیشین گوئی صادق ہوئی۔

                حضرت مولانا بشیر احمد حصاروی صاحب کی تحقیق یہ ہےکہ پہلے ”مہدی“ سے مراد امارت اسلامیہ افغانستان کے بانی ملّا عمرؒ ہیں،([13]) جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت یافتہ گان میں سے بنایا تھا اور اپنے وقت کے عظیم ترین مجاہدین کا امیر بنایا۔ اور ملا عمرؒ ”حارث“ اور ”منصور“ نامی دو شخصیتوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت امام مہدی سے پہلے یہ آل محمد یعنی حضرت امام مہدی کے لئے راستے کی ہمواری کا کام کریں گی۔

ان کے بعد قحطانی کا ظہور ہوا، جن کے کانوں میں سوراخ ہوں گے یہ محمد بن عبداللہ القحطانی تھے جو جہیمان کے بہنوئی تھے جنہوں نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور جنہیں سعودی حکومت نے قتل کر دیا تھا، البتہ ان کی عمر 24 سال تھی، (احادیث میں  20 کا عدد شاید عربوں کے عرف کے مطابق مذکور ہے کہ عرب کسور کو حذف کردیتے ہیں،  اور مرکزی عدد (round figure) ذکر کرتے ہیں۔

اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا جو قسطنطینیہ کو فتح کریں گے، خلافت علی منہاج النبوت کو قائم فرمائیں گے، اس امت کے آخری خلیفہ ہوں گے انہیں کے زمانے میں دجال کا خروج ہوگا جسے قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔

دو پناہ پکڑنے والے

کتاب الفتن کی ایک روایت سے حرم کے اس واقعے کی مزید وضاحت ہوتی ہے:

سَيَعوذُ بِمكةَ عائذٌ فَيُقتَلُ ثُمَّ يَمكثُ النَّاسُ بُرهَةً من دَهرِهمْ ثُمَّ يَعوذُ عائذٌ اٰخرُ فإِنْ أَدرَكته فلَا تَغزُوَنَّه فإِنَّه جَيشُ الخَسفِ.([14])

                ”مکہ میں ایک شخص پناہ لے گا، تو اسے قتل کر دیا جائے گا، پھر لوگ ایک عرصہ انتظار کریں گے اس کے بعد ایک اور شخص پناہ لے گا، اگر تم نے وہ زمانہ پالیا تو اس سے لڑائی نہ کرنا کیونکہ اس سے لڑنے والا لشکر زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ “

 پناہ پکڑنے والا پہلا شخص محمد بن عبداللہ قحطانی تھا جسے قتل کر دیا گیا،  اگر چہ اسے علی الاعلان قتل نہیں کیا گیا، لیکن سعودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ قحطانی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ اس ویڈیو میں نظر آتا ہے جس میں سعودی حکومت کے اہل کار قحطانی کے بھائی کو اس کی لاش کا فوٹو دکھا کر اس کی تصدیق کروارہے ہیں۔

                عائذ کا لفظ قابلِ غور ہے کیونکہ حدیث میں هارب یا فار کا لفظ نہیں ہے یعنی بھاگنے والا، کیونکہ قحطانی ہو یا امام مہدی دونوں ہی پناہ لینے والے ہوں گے نہ کہ بھاگنے والے۔ عوذ کا لفظ عربی میں ایسے پناہ کے لئے مستعمل ہے جس میں پناہ لینے والا کسی مقصد کے حصول کے لئے کسی صاحب قوت کی پناہ میں آتا ہے تاکہ کسی رد عمل یا خطرے سے محفوظ رہے، اور اس کا یہ گمان ہوتا ہے کہ اس صاحبِ قوت کی پناہ میں آئے بغیر ہر گز یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔

                اس حدیث کا مصداق حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ ”عائذ“ نہیں تھے بلکہ وہ یزید کے لشکر سے بھاگ کر گھر والوں سمیت اللہ کی پناہ میں آکر بیت اللہ کی حرمت کے سائے میں آگئے تھے، جبکہ اموی لشکر نے آپ کا محاصرہ کیا ہوا تھا، اور محاصرے سے پہلے ہی آپ کی بیعت ہوچکی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں اجنبی بھی نہیں تھے بلکہ دس سال تک آپ کی حکومت مکہ میں قائم رہی، جبکہ یہاں روایت میں لفظ رجل مذکور ہے جس کی تنکیر اس کے غیر معروف ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس محاصرے کے بعد حجاج نے آپ کو شہید کردیا تھا وہ بھی سات ماہ تک جاری رہا تھا۔ نیز اگر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو عائذِ اوّل مانا جائے تو حدیث کا دوسرا حصہ یعنی عائذِ ثانی سے لڑنے والا لشکر یعنی جیش الخسف کا ابھی تک کوئی وجود نہیں ، حالانکہ برهة سے کئی گنا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔

                فَيُقتَلُ سے معلوم ہوا کہ یہ پہلا عائذ فورا قتل کر دیا جائے گا کیونکہ عوذ (پناہ) کے بعد قتل سے پہلے لفظِ ”ف“ آیا ہے، جو کسی چیز کے متصلا بعد میں آنے کو ظاہر کرتا ہے، اور قحطانی کے معاملے میں یہی ہوا کہ اسے تین دن بعد ہی قتل کر دیا گیا، جبکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو اصلا ”عائذ“ تھے ہی نہیں انہیں حجاز میں دس سال تک حکومت کرنے کے بعد  حجاج نے شہید کر دیا تھا۔

دونوں کے درمیان وقفہ

ثُمَّ يَمكُثُ النَّاسُ ”اس کے بعد لوگ ایک عرصہ ٹھہریں گے“ ثُمَّ کا لفظ طویل وقفے کو بتانے کے لئے آتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے عائذ کے واقعے کے بعد لوگ ایک وقفے تک ٹھہرے رہیں گے، ٹھہرنے کے لئے عربی میں کئی سارے الفاظ مستعمل ہیں، مثلا مکث، لبث، يبقی، ينتظر وغیرہ۔ یہاں پر ان میں سے لفظِ مكث آیا ہے جو بلا تحدید زمان کسی امر مرغوب فیہ کے انتظار کرنے کے لئے ٹھہرنے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی لوگ عائذ اوّل کے بعد انتظار کریں گے اور انہیں امید ہوگی کسی مرغوب امر کی، مزید یہ کہ الناس کا استغراق   یہ بتاتا ہے کہ ظلم و جبر اور زیادتی کی وجہ سے تمام لوگ اس نظام سے خلاصی کے انتظار میں ہوں گے، سوال یہ ہے کہ یہ انتظار کتنی مدت تک ہوگا؟ بُرهة کا لفظ عربی میں ایک مخصوص مدت کے لئے آتا ہے جس کے دوران کسی قسم کی تغییر ممکن ہو، لیکن یہ مدت کتنی ہوسکتی ہے؟

عن أنس بن مالك أن النبي ﷺ قال: إن الرجلَ ليعمَل البرهةَ من عمره بعمل أهل الجنة، فإذا كان قبلَ موته بحول فعمل بعمل أهل النار فمات فدخل النار والرجل ليعمل البرهة من عمره بعمل أهل النار فإذا كان قبل موته بحول فعمِل بعمل أهل الجنة فمات فدخل الجنة.([15])

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ایک شخص جنتیوں جیسا عمل کرتا رہتا ہے اپنی زندگی کے ایک حصے میں لیکن جب اس کی موت کو ایک سال باقی رہتا ہے تو  وہ دوزخیوں والا عمل شروع کر لیتا ہے (اسی طرح اس کا خاتمہ برائی پر ہوجاتا ہے) اور ایک بندہ وہ ہے جو زندگی بھر  برهة من دهره دوزخیوں جیساعمل کرتا رہتا ہے، جب اس کی موت کا ایک سال باقی رہتا ہے  تو وہ اہلِ جنت جیسا عمل اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ مرجاتا ہے تو جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔

                اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے برهة کا لفظ زندگی کے ایک لمبے وقفے کے لئے استعمال فرمایا، اگر متوسط عمر 60 فرض کی جائے جیسا کہ حدیث میں اس امت کی عمروں کا تذکرہ  ہے اور بلوغت کے 15 سال بھی نکالے جائیں تو باقی مدت 45 سال بچتی ہے، یعنی  برهة گویا 45 سال تک کی مدت پر بولا جاتا ہے۔ نیز یہاں لفظ برهةً من دَهرِهم نکرہ آیا ہے جس سے اشارہ ہوسکتا ہے کہ یہ مدت  بھی پوری ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ برهة اتنی مدت پر بولا جاتا ہے جتنی مدت میں ایک نسل ختم ہوجاتی ہے یعنی 40 سال، جیسا کہ یہود وادئ تیہ میں 40 سال رہے اور غلامی کی خصلت میں پرورش پانے والی نسل ختم ہوئی تو اگلی نسل کو اللہ نے بیت المقدس کی فتح کے لئے چن لیا۔ اسی طرح انبیا علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ 40 سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرماتے ہیں۔

                اس روایت میں ایک اور قابلِ غور نکتہ یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے برهة من دهرهم فرمایا برهة من الدهر نہیں فرمایا، عربی لغت کے لحاظ سے دونوں میں جو فرق ہے، وہ معمولی نہیں ہے، اور حدیث کے اعجاز کی طرف اشارہ ہے۔ برهة من دهرهم  کا مطلب یہ ہے کہ عائذِ اوّل کو دیکھنے والوں پر ہی یہ مدت گزرے گی اور اور یہی لوگ انتظار کر کے عائذِ ثانی یعنی امام مہدی علیہ السلام کو پائیں گے۔ اس سے مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی نسل کے لوگوں کے سامنے پیش آئیں گے، اور امام مہدی علیہ السلام کو پانے والے اکثر یا بعض وہی ہوں گے جو پہلے والے حادثے کے وقت موجود تھے۔

                ایسے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اگر عائذِ ثانی کا زمانہ پالیں تو ان سے ہرگز لڑائی نہ کریں نہ کسی ایسی فوج کا حصہ بنیں جو حرم میں موجود اس پناہ گزیں شخصیت کے ساتھ لڑنے والی ہو،  کیونکہ ان سے لڑنے والا لشکر زمین میں دھنسا دیا جائے گا، اور یہ بات قطعی احادیث سے معلوم ہے کہ دھنسایا جانے والا لشکر وہی ہے جو سفیانی کا ہے اور جو امام مہدی کے مقابلے کے لئے آنے والا ہوگا جسے مدینہ کے قریب بیدا کے مقام پر اللہ زمین میں غرق کردے گا۔

                جہیمان اور قحطانی کا واقعہ 1979 میں پیش آیا، جو ہجری سن کے لحاظ سے ۱۴۰۰ھ  بنتا ہے، اگر مذکورہ تطبیق کے مطابق دیکھیں تو 40 سال ۱۴۴۰ / ؁2019میں پورے ہوتے ہیں، جس کے بعد ظہورِ مہدی قریب ہی ہے، واللہ اعلم

غلطی کہاں ہوئی؟

                آخر میں یہ سوال باقی رہتا ہے کہ وہ کیا اسباب  تھے جن کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہوگئی اور حرم جیسی مقدس جگہ کی بے حرمتی کا ذریعہ بنی؟ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جہیمان اور اس کے ساتھیوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں تمام احادیث و روایات کا لحاظ نہیں کیا، امام مہدی کے بارے میں وارد زمانی و مکانی صفات، امام مہدی کی شخصیت، آپ کا نام و نسب اور جسمانی خصوصیات سے صرفِ نظر کیا گیا،  اور جو مجموعی صورت حال ان روایات سے بنتی ہے اسے ضعیف حدیث کے نام پر مسترد کیا گیا۔ اس سےعلامات قیامت کے بارے میں ایک تنگ اور محدود تصور پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں ان کے فہم میں غلطی واقع ہوئی اور یہ حادثہ رونما ہوا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں وارد روایات میں ان خصوصیات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ آپ کا نام و نسب، مقامِ پیدائش، ہجرت، خاندان، مقامِ خروج، جسمانی علامات سمیت تقریبا اسی ایسی نشانیاں ہیں جو مختلف روایات و آثار میں مروی ہیں، انہیں محض ضعیف کہہ کر مسترد کردینا درست رویہ نہیں ہے، جبکہ انہی ضعیف روایات میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جن پر زمانے نے صداقت کی مہر لگائی ہے۔ اور وہ سچ ثابت ہوئی ہیں۔ 

امام مہدی کی تلاش سے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ سے پہلے کے زمانے کا رنگ کیا ہوگا؟ شام، عراق، مصر اور حجاز کی کیا صورت حال ہوگی؟ فتنوں کی کثرت ہوگی، مسلمانوں کا آپس میں شدید اختلاف ہوگا، زلزلے بہت ہوں گے۔ آسمانی نشانیوں کا ظہور ہوگا، سفیانی صفت کے حامل چند ظالم حکام کااقتدار ہو گا۔ مسلمانوں کو کہیں پر کوئی جائے اماں نہیں مل رہی ہوگی، اور لوگ انتہا درجے کے مایوسی کا شکار ہوں گے کہ ایسے حالات میں چند علما سر ہتھیلی پر رکھ کر حضرت امام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے، آپ کی نشانیوں کو سامنے رکھ کر آپ کو ڈھونڈیں گے یہاں تک کہ امام کو مکہ میں جالیں گے، امام مہدی کے انکار کے باوجود شدید اصرار بلکہ قتل کی دھمکی دے کر آپ سے بیت اللہ کے قریب بیعت لیں گے۔

صماء عمياء مطبقة تمور مور البحر حتی لايجد أحدٌ من الناس منها ملجأً تطيف بالشام و تغشَی العراقَ و تخبط الجزيرةَ بيدهاو رجلها تعرِكُ الأمةُ فيها بالبلاء عركَ الأديم ثم لايستطيع أحدٌ من الناس أن يقول فيها مَهْ مَهْ، لا يدفعونها من ناحية إلا انفتَقَتْ من ناحية أخریٰ. ([16])

ایسا فتنہ ہوگا جو بہرا اور اندھا ہوگا، ہمہ گیر اور  ڈھانکنے والا، اس میں  سمندر کی موجوں جیسا اضطراب ہوگا، کسی کو جائے پناہ نہیں ملے گی، یہ فتنہ شام کا چکر لگائےگا، عراق پر چھا جائے گا، جزیرۃ العرب کو اپنے ہاتھوں پیروں سے روندے گا۔ امت آزمائش کی اس بھٹی میں چمڑے کی طرح رگڑی جائے گی، کوئی اسے روکنے کے لئے کہنے والا نہیں ہوگا، ایک جانب سے اسے دفع کیا جائے گا تو دوسری جانب  سے شگا ف پیدا ہوجائے گا۔ ایک روایت  میں آیا ہے: لَا يَرْقَعُوْنَهَا مِنْ نَّاحِيَةٍ إلَّا انفَتَّتْ یعنی ایک جانب سے پیوند لگا کر جوڑیں گے لیکن دوسری جانب سے وہ پھٹ جائے گا۔

                 2011 سے عرب بہار کے خون آشام فتنے نے شام کو گھیراجہاں ابھی تک آزمائش جاری ہے، پھر عراق جہاں  2003  سے امریکیت کا دور دورہ تھا، کہ 2014 میں دولت اسلامیہ کے اعلانِ خلافت کے بعد مزید حالات بگڑ گئے، جب جب لگتا ہے کہ حالات درستگی کی جانب جارہے ہیں اور کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے تب فتنے کی آگ پھر بھڑکنے لگتی ہے،  یہاں کے مسلمان چمڑے کی طرح اس میں رگڑے گئے لیکن امن کی صبح طلوع ہو کے نہیں دے رہی۔ عراق و شام کے بعد جزیرۃ العرب بھی اس فتنے کا شدید ترین شکار ہوگا۔

                جہیمان کے زمانے میں ظلم جتنا بھی تھا بہر حال اتنا نہیں تھا کہ عالم عرب بالخصوص جزیرۃ العرب میں سیاسی و انتظامی لحاظ سے کوئی خلا تھا بلکہ ایک مضبوط حکومت قائم تھی۔ لہذا جہیمان کی تحریک ناکامی کا شکار ہوگئی۔

امام کی بیعت پر امن ہوگی

                جہیمان کی تحریک میں ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ اسلحہ لے کر حرم شریف میں داخل ہوگئے اور ایک مقدس مقام کی بے حرمتی کا سبب بن گئے، حالانکہ حضرت امام مہدی کی بیعت نہایت امن کے ساتھ ہوگی۔

          عن عبد الله بن صفوان عن أم المؤمنين أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال: سيعوذ بهذا البيت يعني الكعبة قوم ليس لهم منعة ولا عدد ولا عُدَّةٌ  يُبعث إليهم جيشٌ حتی إذا كانوا ببيداء من الأرض خسف بهم.([17])

          حضرت عبداللہ بن صفوان نے حضرت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: عنقریب اس گھر یعنی بیت اللہ کی پناہ ایسی قوم پکڑے گی جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی نہ ان کی کوئی قابلِ ذکر تعداد ہوگی اور نہ ان کے پاس سامانِ جنگ ہوگا، ان کی جانب ایک لشکر بھیجا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ بیدا مقام پر ہوگا تو اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔


يُبَايع المهديُّ بين الركنِ والمقامِ لَا يُوقِظُ نَائِمًا وَ لَا يَهرِيقُ دمًا.([18])

” حضرت امام مہدی کی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے، اور اس بیعت کی وجہ سے نہ کسی کی نیند خراب ہوگی اور نہ خون بہے گا۔“

                اگر چہ جہیمان اور اس کے ساتھیوں نے قتال میں پہل نہیں کی جس کی دلیل یہ ہے کہ آج بھی وہ آڈیو کیسٹیں موجود ہیں جن میں جہیمان اپنے پیروکاروں کو یہ احکامات دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ قتال میں پہل نہ کی جائے نہ ہی گولیاں چلائی جائیں۔ نہ ہی ان کا مقصد بیت اللہ میں قتال تھا بلکہ یہ صرف دفاعی نقطہ نظر سے مسلح ہوکر گئے تھے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ اسلحہ لے کر باقاعدہ حرم میں داخل ہوگئے تھے، اور بعد میں اسلحہ استعمال بھی کر لیا گیا تھا۔

                سعودی حکومت نے ان کے خلاف اسلحہ استعمال کرنے کے لئے علما سے اجازت لی، انہوں نے بھی سعودی حکومت کو مایوس نہیں کیا اور تیس علما نے ان لوگوں کے خلاف حرم مکی میں قتال کا فتویٰ دے دیا۔ اور اسے ایک دینی جواز عطا کیا گیا،  جس طرح آج سے چالیس سال پہلے جہیمان کے خلاف سعودی حکومت نے علما کو استعمال کیا اور ان سے قتال کے لئے فتویٰ حاصل کیا، اسی طرح اگر حقیقتا امام مہدی کا ظہور ہوا تب بھی ممکن ہے کہ اس وقت ایسے درباری علما سے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قتال کے لئے فتویٰ لیا جائے، جو حکام وقت کو مایوس نہیں کریں گے۔

                جہیمان واقعہ گویا فجرِ صادق سے پہلے فجرِ کاذب کی طرح ہے۔ جب افق کے کناروں سے ہلکی سے روشنی اوپر کی جانب اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے گویا اندھیرا چھٹ گیا اور سحر طلوع ہوگئی، لیکن ابھی کچھ دیر باقی ہے ۔ انتظار کی ان گھڑیوں میں صبر لازم ہے، عجلت اور جلد بازی نقصان کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ أليسَ الصُّبحُ بِقَرِيبٍ صبح بس ہوا چاہتی ہے۔ جہیمان واقعے پر قریبا چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب تو حضرت امام مہدی کا ظہور بہت ہی قریب ہے، اور ان شاء اللہ امت جلد ہی نہجِ نبوی پر خلافت کو قائم ہوتا دیکھے گی۔ 



([1]): توحید المملكة العربية السعودية ، ترجمة محمد المانع ص ۱۵۲

([2]): جہیمان کی پیدائش 16 ستمبر6 193کو ہوئی تھی ، اور پرورش ساجر کی ہجرت کے دوران ہوئی، جس کی ابتدا  ۱۳۳۳ ہجری / 1914 ءمیں ہوئی تھی۔ پھر سعودی نیشنل گارڈ میں ایک فوجی کی حیثیت سے بھرتی ہوئی جس میں جہیمان ایک ٹینکر کا ڈرائیور تھا۔ (فوج سے اس کی نفرت کی وجہ شیخ حمود التویجری کی کتابیں الايضاح والتبیین لما وقع فيه الاكثرون من مشابهة المشركين“ بنی، کیونکہ اس میں مؤلف نے مشرکین کے ساتھ تشبہ کے بارے میں شدت سے کام لیا تھا بلکہ ایسے شخص کو ملت ہی سے خارج کر دیا تھا)  اس کے بعد اس نے  کوشش کی کہ اسے پرائمری کی سرٹیفیکیٹ مل جائے تاکہ اسے ملازمت میں ترقی ملے، لیکن چوتھی جماعت ہی میں اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور معہد دارالحدیث کی القسم الابتدائی میں کچھ عرصے کے لئے داخلہ لے لیا، پھر اسے بھی جاری نہ رکھ سکا۔ تدریس کے اسلوب اور نظامی طریقے سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے معہد دارالحدیث کو بھی چھوڑ دیا۔ اس بات نے بعد میں نظامی پڑھائی کے متعلق اسے ایک معاندانہ موقف پر مجبور کیا۔ لکھنے کے لحاظ سے وہ تقریبا ان پڑھ تھا، جس میں املا اور گرائمر کی بہت غلطیاں ہوتی تھیں۔البتہ اس کا حافظہ قوی تھا اور قوت استدلال کا مالک تھا۔ ظاہری نصوص کی چاردیواری میں مقید رہتا تھا۔ وہ ان تمام علوم و فنون سے الگ تھلگ رہتا تھا جن کے ساتھ اس کا تعامل مشکل تھا، بلکہ علوم شریعت کے واسطے ضروری علوم آلیہ پر اکثر اعتراض کرتا تھا، مثلا نحو، اصولِ فقہ وغیرہ۔ جس میں عموما یہ دلیل دیتے کہ سلف اور صحابہ کرام نے ان علوم کو حاصل نہیں کیا تھا۔ اور یہ کہ اللہ نے تقوی اختیار کرنے پر علم دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ اللهُ ﴾ (اور تقوی اختیار کرو اور وہی تمہیں علم دے گا)۔

([3]) أيام مع جهيمان ص ۴۱۔  یہ ناصر الحزیمی کی کتاب ہے جس کا پورا نام أيام مع جهيمان كنا مع الجماعة السلفية المحتسبةہے،    یہ جہیمان کے قریبی ساتھی تھے، الجماعة السلفية المحتسبة کے اہم رکن تھے، اور جنہوں نے  جہیمان کے ساتھ رفاقت کی سرگزشت خود اپنے قلم سے تحریر کی ہے۔

([4])  یہ جماعت 1965 کے بعد وجود میں آئی، اس کے بانیوں میں اکثر وہ تھے جو تبلیغی جماعت سے نکل کر یہاں آئے تھے، یہ لوگ سمجھتے تھے کہ تبلیغی جماعت والے توحید کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو اسے دینی چاہئے، ولا اور براء کے عقیدے اور نہی عن المنکر کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔  انہی میں سے ایک جہیمان بھی تھے جو پہلے سعودی نیشنل گارڈ میں ڈرائیور تھے۔اس جماعت کی سنگِ بنیاد چھ افراد نے رکھی۔ اس کے بعد یہ لوگ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کے پاس آئے اور ان سے عرض کیا کہ ہم نے جماعت سلفیہ قائم کی ہے جس کی بنیاد دعوتِ توحید پر ہے، اور کسی فقہی مذہب کی تقلید پر نہیں بلکہ قرآن و سنت سے تمسک پر ہے، اور ہمارا اس سے کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں ہے۔  ان لوگوں نے ابن بازسے درخواست کی کہ آپ ہماری سرپرستی قبول فرمائیں۔ انہوں نے قبول  کیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ چونکہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید بھی رکھتے ہیں اس لئے اس جماعت کا نام  الجماعة السلفية المحتسبة ہونا چاہئے، احتساب کا معنی عربی میں ہے اللہ سے اجر کی امید رکھنا )۔

([5])  یہ لوگقرآن و حدیث کو لینے کے نام پر غلو کا شکار ہوگئے، اور فقہی مذاہب سمیت بہت سارے علوم و فنون کو ترک کیا جیسے لغت، اصول فقہ، اور استحسان و قیاس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ ان میں بہت سارے حضرات وہ تھے جو سعودیہ کے بدوی زندگی کے عادی تھے اور شہری زندگی کے ہنگاموں سے دور رہنا پسند کرتے تھے۔ اسلامی شعائر کا احترام کرتے تھے اور دین کے اُن اصولوں پر کاربند رہتے تھے، جنہیں آج شدت پسندی اور انتہاپسندی سمجھا جاتا ہے، مثلا اس جماعت کے ساتھی ”صلیب“ کی تصویر والی گھڑی نہیں پہنتے تھے ( أيام مع جهيمان ص ۲۹)

([6])  رسالة الفتن و أخبار المهدي و نزول عيسی و أشراط الساعة.

([7]): ناصر الحزیمی لکھتے ہیں : ایک دفعہ میری ملاقات محمد بن عبداللہ القحطانی سے ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو اپنے متعلق یہ اطمینان ہے کہ آپ ہی مہدی منتظَر ہیں؟ تو انہوں نے کہا: پہلے مجھے اس بارے میں کوئی اطمینان نہیں تھا جو اخوان میرے بارے میں کہتے رہے ہیں کہ میں مہدی منتظَر ہوں، لیکن پھر ایک مدت کے بعد میں ایک طرف ہوا، کئی مرتبہ استخارہ کیا، اور ایک رات میرا اس مسئلے میں شرح صدر ہوگیا۔ شروع میں اخوان مہدی کا تذکرہ کرتے تو میں اسے مذاق سمجھتا تھا، اور دل ہی دل میں ہنستا تھا، لیکن اس کے بعد تواتر سے خواب نظر آنے لگے، پھر میں سنجیدہ ہوگیا۔

                پھر میں نے  سعد بن عبداللہ القحطانی سے ان کے بھائی کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے بھائی امام مہدی کیسے ہوسکتے ہیں کیونکہ آپ تو قحطانی ہیں جبکہ امام مہدی کے بارے میں روایات ہیں کہ وہ قریشی النسل ہوں گے۔ تو کہنے لگے کہ ہم اصلا و نسبا قحطانی قبیلے سے نہیں ہیں، بلکہ حلفاً ہم اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہمارے جد امجد مصر کے سادات میں سے تھے، جو محمد علی کے حملوں میں ترکوں کے ساتھ آئے تھے۔ اور پہلے جازان پھر عسیر کو اپنا وطن بنایا۔ اور ہم بیت الترکی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ (أيام مع جهيمان ص ۷۴)

([8]) أيام مع جهيمان ص ۸۳.

([9]) (أيام مع جهيمان ۸۴)مکمل خطبہ سعودی روزنامے ”الریاض“ میں موجود ہے۔ شمارہ 4398، تاریخ: ۱۷/۱/ ۱۴۰۰

([10]) رواه أحمد ۲/۲۹۱، ۷۸۹۷ ، وابن حبان ۱۵/۲۳۹ ، والحاكم ۴/۴۹۹. وقال: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه. وقال الذهبي في التلخيص: ما خرجا لابن سمعان شيئاً. وقال الهيثمي في مجمع الزوائد ۳/۲۹۸: في الصحيح بعضه رواة أحمد ورجاله ثقات.

([11]): کتاب الفتن لنعيم بن حماد، عقد الدرر في أخبار المنتظرللسلمي الشافعي.

([12]) رواه نعيم بن حماد.

([13])  اگر اس پر یہ اشکال کیا جائے کہ حدیث میں مہدی کا ذکر پہلے ہے اور قحطانی کا بعد میں ہے، حالانکہ محمد بن عبد اللہ قحطانی، ملا عمر کی موت سے پہلے گزرے۔ آخری زمانے کی روایات و احادیث میں بعض اوقات ترتیب زمانی مقصود نہیں ہوتی، یعنی واقعات کی ترتیب الفاظ کی ترتیب کے مطابق نہیں ہوتی، بعض اوقات دو مختلف بعید وقفے کے واقعات ایک ہی جملے میں ذکر کئے جاتے ہیں۔ اس لئے صرف الفاظ ہی کے پیچ و خم میں الجھنے کی بجائے  دوسری روایات اور معروضی صورت حال کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔

([14]) کتاب الفتن لنعيم بن حماد.

([15]) مجمع البحرين في زوائد المعجمين ۵/ ۳۷۳، رقم ۳۲۳۲.

([16]) رواه نعيم بن حماد في كتاب الفتن.

([17]) (صحيح مسلم)

([18])  الفتن ۹۹۱

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟