شام

شام امت کا تھرمامیڑ ہے۔ امت میں جتنا بھی خیر باقی ہو اس کا اثر شام میں ظاہر ہوگا، فتنوں کے دور میں مسلمانوں کے لئے اس سرزمین کو پناہ گاہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جب فتنے خود یہیں سے پھوٹ پڑیں تو پھر کہیں بھی خیر نہیں باقی نہیں رہے گی۔ دوسری طرف یہ زمین کا مبارک ترین اور حساس خطہ ہے، یہاں مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس ترین مذہبی مقامات موجود ہیں۔ یہ انبیا کا مسکن رہا ہے، اور اس کو نبی اکرم کے قدم مبارک چھونے کا اعزاز حاصل ہے، إذا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيْكُمْ (مسند أحمد) ”جب شام کے رہنے والے بھی بگڑ جائیں گے تو تم میں کوئی خیر نہ ہوگی“ شام کا فتنہ کیا ہے؟ نعیم بن حماد کی کتاب الفتن میں حضرت سعید بن المسیبؒ کا اثر منقول ہے کہ: تَكُوْنُ فِتْنَةٌ بِالشَّامِ، كَانَ أَوَّلَهَا لَعبُ الصِّبْيَانِ، كُلَّمَا سَكَنَتْ مِنْ جَانِبٍ طَمتْ مِن جَانبٍ فَلَا تَتَنَاهٰى حَتّٰى يُنَادِيْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَاء: أَلَا إِنَّ الأَمِيْرَ فُلَانٌ، وفَتَلَ ابنُ المُسَيَّبِ بِيَدَيْهِ حَتى أَنَّهُمَا لَتَنْقُصَانِ فَقَالَ: ذٰلِكَ الأَمِيْرُ حَقًّا، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ . (الفتن لنعيم بن حماد) ”شام میں ایک فتنہ ہوگا، جس کی ابتدا بچوں کے کھیل سے ہوگی، جب بھی ایک طرف سکون ہوگا تو دوسری جانب میں تیزی آئے گی، یہاں تک کہ اوپر سے ایک پکارنے والا پکارے گا کہ: تمہارا امیر فلاں ہے، یہ کہہ کر ابن المسیب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو موڑا گویا ان میں کپکپی پیدا ہوئی ہو، پھر فرمایا :وہی برحق امیر ہوگا۔ (یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا)“ اگر چہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن حقیقت کی دنیا میں اس کا مصداق حیران کن طور پر ظاہرہوا، 2010 کے آخر میں شروع ہونے والے عرب بہار کا اثر تونس، مصر سے ہوتے ہوئے جب شام تک پہنچا تو 2011 ءمیں شامی فتنے کا آغازہوا۔عرب بہار سے متاثر دوسرے عرب ملکوں میں نسبتا سکون کے باوجود شام ابھی تک سلگ رہا ہے، دن بہ دن شامی قضیہ طویل سے طویل تر اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے، اور یہ مقامی گروہوں کی لڑائیوں سے نکل کر اب عالمی طاقتوں کا جنگی بساط بن چکا ہے۔ اور یہاں وہ منظر بن چکا ہے جو حضرت امام مہدی کے ظہور کی ایک علامت کے طور پر روایات میں مذکور ہے۔ صوبہ درعا میں ایک چودہ سالہ بچے ”حمزہ الخطیب“، ”ثامر الشرعی“ سمیت پندرہ دوسرے بچوں نے سکول کی دیوار پر إجاک الدور یا دوکتور اور ارحل یا بشار یعنی یہ کہ تمہارا دور گزر گیا اور بشار! تم چلے جاؤ جیسے نعرے لکھے۔ جس پر سرکاری سیکورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اور ان پر وحشیانہ طریقے سے تشدد کیا گیا۔ یہ 26 فروری 2011 کی بات ہے۔ درعا شام کے جنوب مغربی خطے میں واقع صوبہ ہے، شامی جنگ کے شرارے یہیں سے پھوٹ پڑے تھے۔ 18 مارچ 2011 میں الجامع العمری کے صحن میں مظاہرین نے اپنے بچوں کی رہائی کے لئے مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرے شام کے مختلف شہروں میں پھیل گئے، تب تک ان میں اخوان المسلمون، القاعدہ یا کسی بھی جہادی تنظیم کا کوئی وجود نہیں تھا، ان مظاہروں کا مقصد جنگ نہیں تھا، بلکہ احتساب اور چند اصلاات کا مطالبہ تھا، لیکن اس دوران ایک شامی افسر نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 20 افراد قتل اور 40 زخمی ہوئے۔ اس سے لوگوں میں مزید اشتعال پھیلا اور درعا کے چوک میں نصب بشار کے مجسمے کو گراکر توڑا گیا۔ اس نے شامی عوام کے دلوں سے خوف نکال دیا، اور کئی دہائیوں سے شام پر قابض اسد خاندان کے ظلم کے خلاف عوام باہر نکل آئے۔ مظاہرین پر یوں اندھا دھند گولیاں چلانے اور کسی مطالبے کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے سینکڑوں جوان اور فوجی باغی ہو کر آمادۂ پیکار ہوگئے، اور پہلے اپنے دفاع میں اور بعد میں سکیورٹی فورسز سے جنگ شروع ہوئی۔ احتساب کے لئے کی جانے والی لڑائی اب طاقت کے حصول میں تبدیل ہوگئی۔ شامی فوج سے الگ ہونے والے فوجیوں نے اپنی تنظیم ”لواء الضباط الأحرار“ کے نام سے قائم کی، اس کے بعد جلد ہی اگست 2011 میں ”الجیش السوری الحر“ نامی تنظیم قائم ہوئی۔ ان دونوں تنظیموں نے شامی سرکاری فوج کے خلاف کئی خونریز کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد قتل ہوئے۔دوسری جانب شامی حکومت نے بھی اس کا جواب ظلم کی زبان میں دیا، اور اپنے ہی عوام کے خلاف خونریزی کی بدترین مثال قائم کی۔ شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، اور امریکہ میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا، تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کردئے، اور حکومتی مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی۔ 2011 کے اواخر میں سلفی جہادی تنظیم الجبهة النصرة قائم ہوئی، جس کے امیر ”ابو محمد الجولانی“ مقرر ہوئے۔ جولانی الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کے امیر ابو بکر البغدادی کی ہدایت پر وہاں گئے۔ ابتدا میں یہ القاعدہ کے تابع تھی لیکن 2016 میں اس نے القاعدہ سے الگ ہو کر جبهة فتح الشام کا نام اختیار کیا، جس کا نعرہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت تھا۔ اس نے بعض اسلامی جماعتوں جیسے اَحرار الشام سے اتحاد بھی کیا اور مشترکہ کارروائیاں بھی کیں۔یوں پہلے ہی سال شامی سرزمین پر لڑے جانے والے اس معرکے میں ایک طرف اسلام پسند جہادی تنظیمیں بھی شامل ہوگئیں۔ تو دوسری جانب شامی حکومت کی معاونت کے لئے ایران اور لبنان سے حزب اللہ اور شیعہ ملیشیائیں پہنچ گئیں، حزب اللہ نے شامی حکومت کی فوجی معاونت کا سرکاری طور پر اعلان کیا، تاہم اس کے جنگجو اس سے بہت پہلے شام بھیجے گئے تھے، بلکہ عرب تجزیہ نگاروں کے مطابق حزب اللہ شامی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یہاں موجود تھی، اور کثیر تعداد میں شیعہ دمشق اور اُس کے آس پاس زمینیں خرید رہے تھے۔ اس کے بعد شامی جنگ مزید پیچیدگی کا شکار ہوگئی۔ 2011 کے موسم سرما تک حزبِ مخالف کی تنظیموں نے بہت سے شہروں اور دیہی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب لڑائی میں فضائی طاقت کا استعمال بھی شروع ہوگیا اور سرکاری افواج بیرل بم بھی استعمال کرنے لگے۔ جولائی 2012 میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ قدیم ترین اور خوبصورت شہر حلب تک پہنچ گیا، وہاں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر بھی تباہی سے دوچار ہوگیا۔ حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوگئی۔ 2012 میں جبهة تحرير سوريا قائم ہوئی، جس کا دعویٰ تھا کہ یہ شامی حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے جس کے نیچے درجن سے زائد فوجی دستے کام کر رہے تھے۔ اب تک مغرب کا موقف تھا کہ شام کے قضیے کا پر امن حل نکالا جائے لیکن یہ حکمت عملی ناکام ہوگئی، برطانیہ، فرانس، امریکہ ، ترکی، اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا، اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیرئین کولیشن سے تعاون بھی شروع کیا، لیکن شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کردئے، اور مزید تشدد سے کام لیا۔ مارچ 2013 میں ”خان العسل“ میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے، اقوام متحدہ کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ 2013 کے آخر میں دولہ اسلامیہ عراق کے سنی علاقوں کو بڑی تیزی کے ساتھ قبضہ کرتے ہوئے شام تک پہنچ گئی، جنوری 2014 میں شامی شہر ”الرقہ“ پر کنٹرول حاصل کر لیا، اور جون میں اسے اپنا ”دارالخلافہ“ قرار دے کر ”ابوبکر البغدادی“ کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔ مغربی طاقتوں کو کسی طور ”خلافت“ کا یہ اعلان برداشت نہیں ہوا، اس لئے امریکہ کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کا آغاز ہوا۔ چنانچہ امریکی صدر اوبامہ نے 70 سے زائد ملکوں کا اتحاد بنایا جن میں سے کئی نے ستمبر 2014 میں دولہ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ فضائیہ اور بحریہ کو بھی متحرک کیا گیا۔ دولہ اسلامیہ کے ظہور کے بعد امریکہ نے شامی حکومت کے خاتمے کا اپنا ہدف تبدیل کیا اور شام سے داعش کے خاتمے کو اپنا ہدف بنالیا۔ اس زمانے میں چند دیگر جہادی تنظیمیں قائم ہوئیں جو مختلف خیالات کے حامل تھیں، ان میں باہم لڑائیں بھی ہوئیں جیسے جیش الاسلام نامی تنظیم اگر چہ سلفی جہادی طرز کی جماعت تھی لیکن یہ بشار الاسد کے ساتھ ساتھ دولہ اسلامیہ کے ساتھ بھی لڑتی رہی۔ اس کے قائد ”زہران علوش“ تھے، اس تنظیم کا زیادہ تر اثر و نفوذ مشرقی غوطہ کے علاقے میں تھا، یہیں پر اس کے امیر روسی یا شامی افواج کے ہاتھوں قتل ہوئے،جبہة النصرة اور دولہ اسلامیہ کی باہمی لڑائیاں بھی ہوئیں، جو خلافت کے موضوع پر تھیں۔ جیش الفتح نامی جماعت بھی سامنے آئی جو مختلف اسلام جماعتوں سے مل کر قائم ہوئی۔ حرکۃ احرار الشام بھی ایک جہادی جماعت تھی۔ کرد قوم پرستوں کی بھی متعدد جماعتیں وجود میں آئیں، یہ سیکولر ذہن کی جماعتیں تھیں، جن سے ایک طرف ترکی کو خطرہ تھا کیونکہ یہ اپنے لئے الگ ملک کی جدوجہد کررہے تھے، دوسری جانب انہیں امریکہ و غیرہ امداد دے کر داعش کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔ کردوں اور اسلامی جماعتوں کی پیش قدمی کی وجہ سے شامی حکومت کے لئے 2012 اور 2013 مشکل ترین سال ثابت ہوئے، جس میں نہ صرف بڑی تعداد میں شہری قتل ہوئے بلکہ سرکاری فوج کا قبضہ بھی آہستہ آہستہ سکڑنے لگا۔ شامی تنازعےمیں روس اگر چہ پہلے بھی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا، البتہ ستمبر 2015 میں ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں مکمل فریق بن گئی،روسی جنگی طیاروں نے اسد مخالفین (جہادی) کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد لڑائی یں ایک اہم موڑ آگیا اور حکومت کی حامی فورسز نے حیران کن پے در پے فتوحات حاصل کرتے ہوئے قبضے سے نکل جانے والے علاقوں کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ روس نے شام میں دو فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جن میں حمیم اور جنوب میں طرطوس کی بندر گاہ میں قائم ہوائی اڈے شامل ہیں۔ روسی حکومت کے اس وقت کے رپورٹ کے مطابق 63 ہزار سے زائد روسی فوجی شام کی لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں۔ طیارے، جنگی بحری جہاز، ہیلی کاپٹر اورآبدوزیں اس کے علاوہ ہیں۔ روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا، تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا، شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔ لیکن روس سے بھی زیادہ اسد کا وفادار ”ایران“ تھا اور ہے، 2013 میں جب اسد کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی تو حمص کی فتح کے لئے ایران نے لبنانی تنظیم حزب اللہ کو میدان میں اتارا، جس سے لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا اور اسد حکومت نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، 2014 میں پاسدارانِ انقلاب کے خفیہ ونگ ”القدس فورس“ نے عراقی شیعہ عسکریت پسندوں تنظیموں کے ارکان کو لڑنے کے لئے شام بھیجا۔ القدس نے افغانی اور پاکستانی شیعوں کو بھی الزینبیون اور الفاطمیون کے نام سے منظم کیا، اور انہیں ٹریننگ دے کر شام بھیجا گیا، 2015 سے 2018 تک جو فتوحات شامی حکومت نے حاصل کیں اس میں ان گروہوں نے بڑا کردار ادا کیا، بعض تجزیہ نگاروں کے اندازے کے مطابق ایران نے تقریبا 80 ہزار افراد اس جنگ کے لئے مہیا کئے، یہ افرادی قوت شام کی سرحدی فوج میں مکمل طور پر ضم ہوگئی۔ اس تنازعے کا پرامن حل نکالنے کے لئے متعدد عالمی سطح کی کوششیں بھی ہوئیں، لیکن یہ اختلاف ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا رہا، جس کا مرکزی مطالبہ صدر بشار الاسد کا تخت سے اترنا تھا۔ لیکن بشار الاسد کے خلاف کوئی سیاسی یا عسکری کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ 2016 سے ترکی بھی شامی جنگ میں دخل انداز ہوا،جنگ کے آغاز میں ترکی کو اس بات کا یقین تھا کہ شامی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا اور حزبِ اختلاف میں موجود اس کے اتحادی خاص طور پر اخوان حاوی ہوجائیں گے۔ تاہم 2015 میں روسی مداخلت اور امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف لڑائی میں کردوں کے استعمال کی وجہ سے بشار حکومت کو کافی استحکام حاصل ہوا، اب ترکی کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں شمالی شام میں کردوں کی ریاست قائم نہ ہوجائے، ترکی نے شمالی شام کی طرف YPG کی پیش قدمی روکی، اور ادلب میں بھی کارروائیاں کرتا رہا۔ شامی حزبِ اختلاف کے درمیان ہمیشہ سیکولر اور مذہبی تقسیم رہی ہے، اس لئے یہ کبھی بھی کسی مسئلے پر اتفاق نہیں کر پاتے، حزبِ اختلاف کے ایسے تمام عناصر جو غیر جہادی لیکن مسلح ہیں وہ ترک فوج کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں، یہ سارے گروہ مکمل طور پر ترکی پر انحصار کر رہے ہیں۔ ترک آرمی بھی ان کا مقابلہ شامی فوج کی بجائے کردوں سے کرواتی تھی، یہ لوگ جہادی گروہوں سے بھی لڑ جاتے ہیں لیکن انہیں اکثر شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ترکی کے حملوں کا ہدف کرد ملیشیا اور دولہ اسلامیہ دونوں تھے، کرد اپنے لئے الگ وطن کا مطالبہ کر رہے تھے، اور ایران، عراق، شام اور ترکی کے کرد علاقوں کو ملا کر اپنے لئے کرد سٹیٹ بنانا چاہتے تھے، اس لئے ترکی کو ان سے خطرہ تھا۔ دولہ اسلامیہ کا اعلانِ خلافت بھی کسی کو ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ ترکی نے اپنے حمایت یافتہ کچھ باغی تنظیمیں بھی بنوائیں، جنہوں نے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ مغربی ملیشیا کرد تنظیموں کی مدد کرتی رہیں کیوں کہ وہ داعش سے لڑ رہی تھیں۔ 2017 کے آغاز میں امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے درمیان ایک سیز فائر معاہدہ طے پا گیا، اس معاہدے سے بھی اس خانماں برباد ملک میں امن کی امید پیدا ہوئی لیکن اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہیں کیا گیا۔ امریکی صدر نے شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغنے کا حکم دیا جہاں سے خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا، امریکا نے اعتدال پسند باغیوں کی مدد میں اضافہ بھی کیا تاہم دوسری طرف روس شامی حکومت کی عسکری مدد کرتا رہا۔ امریکی حمایت یافتہ سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کے کرد اور عرب جنگجوؤں نے الرقہ کا محاصرہ کیا جو داعش کے پاس تھا، اور لڑائی شروع کی، اکتوبر میں اس فورس نے اعلان کیا کہ الرقہ سے مجاہدین کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ یہ داعش کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا تاہم شامی جنگ کے دیگر محاذ ابھی تک گرم تھے۔ عراق کویت جنگ کے بعد خلیج میں جب امریکی فوجیں داخل ہوئیں تب سے عالمِ عرب مسلسل ایک المناک صورت حال دوچار ہے، اور دن بہ دن اس میں اضافہ ہورہا ہے، البتہ 2011 کے بعد عالمِ عرب کی آزمائش شدید ہوگئی ہے، خصوصا عراق اور پھر شام فتنے کی بھٹی میں ایسے جھونکے گئے کہ وہاں کے مسلمانوں پر ترس آتا ہے، اللہ ہی ان کی آزمائش کو راحت میں بدل دے۔ نظامِ جبر کی یہ آخری سانسیں ہیں جس کے بعد ان شاء اللہ خلافت کا سویرا ہے۔ عراق، شام ، جزیرۃ العرب اور مصر کے خطے ایک ہی زمانے میں فتنے کا شکار ہوں گے، نعیم بن حماد نے کعب احبارؒکا یہ اثر نقل کیا ہے کہ: لَيُوشِكَنَّ العِرَاق يُعْرَكُ عَرْكَ الأَدِيْمِ وَيُشَقُّ الشَّامُ شَقَّ الشَّعْرِ وتُفَتُّ مِصْرَ فَتَّ البَعْرَة فَعِنْدَهَا يَنْزِلُ الأَمْرُ . (الفتن) ترجمہ:عنقریب عراق کو چمڑے کی طرح رگڑا جائے گا، شام کو بال کی طرح چیرا جائے گا، اور مصر کو (خشک) مینگنی کی طرح چورا چورا کیا جائے گا۔ عراق پر 1990 اور پھر 2003 میں امریکی حملوں نے عراق کو واقعتا چمڑے کی طرح رگڑ دیا ہے، اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے، شام کو بال کی طرح چیرا گیا، بال کے چیرے جانے سے اس آزمائش کے طویل ہونے کی جانب اشارہ ہے، اور عالم عرب میں سب سے طویل اور شدید جنگ شامی عوام نے جھیلی ہے۔ شام میں اتنے ملک داخل انداز ہوگئے اور ان کے اتنے پراکسی پیدا ہوگئے ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا، شامی حکومت بھی اب سارے علاقوں پراپنا کنٹرول دوبارہ قائم نہیں کر سکتی، اسے امریکہ اور ترکی سے مذاکرات کرنے ہوں گے اور ان کے اتحادیوں کی سلامتی کی ضمانت دینی ہوگی، 30 جون 2012 کو جنیوا میں مذاکرات ہوئے جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ فائر بندی کی جائے، اور اسد حکومت اور حزبِ اختلاف مذاکرات کے لئے اکٹھی ہوجائے، جنوری 2014 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شامی حکومت، 12 عسکری گروہوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو جنیوا میں مذاکرات کی ٹیبل پر لانے میں ڈیڑھ سال لگ گیا، ترکی اور قطر کی مداخلت کی وجہ سے غیر جہادی اسلامی تنظیمیں بھی مذاکرات کا حصہ بننے پر رضامند ہوئیں، اگرچہ حزب اختلاف تما م سیاسی و غیر سیاسی معاملات پر بات چیت کرنے کے لیے تیارتھی اور یہاں تک بھی راضی تھی کہ بشار کو ہی صدر رہنے دیا جائے اور ایک دوسرا سیاسی نظام ان ہی کی نگرانی میں تشکیل دیا جائے جس میں حزب اختلاف کو بھی موقع ملے،لیکن شامی حکومت نے اقتدار میں شراکت داری کے حوالے سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کر دیا،جس کے نتیجے میں مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے۔کیونکہ بشار حکومت کافی مضبوط ہوگئی تھی اور عسکری گروہوں کے درمیان اتحاد کے فقدان اور قیادت کے درمیان تنازعات کی وجہ سے بشار کی فوج پر دباؤ مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ البتہ اعصاب کی یہ جنگ طویل ہوگئی اور 2015 کے بہار تک بشار الاسد کو اعلان کرنا پڑا کہ ہماری فوج کو ان علاقوں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا ، لیکن اس موقع پر ایران حرکت میں آیا اور القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی روس کے دورے پر گئے تاکہ اس سے پہلے کہ بشار حکومت کا خاتمہ ہوجائے ماسکو کو زمینی مدد پر آمادہ کیا جاسکے، روس کی بڑھتی ہوئی فوجی مداخلت کی وجہ سے ان علاقوں پر بشار کا کنٹرول دوبارہ مضبوط ہوگیا۔ 2016 میں جنیوا مذاکرات ایک دفعہ پھر شامی حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہوگئے، شام کو روس و ایران کے بازوؤں پر یقین تھا، ادھر امریکہ کی توجہ شامی حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے سے ہٹ کر مشرقی شام سے داعش کے خاتمے پر مرکوز ہوگئی، جب روس مغربی شام میں حزبِ اختلاف کے گروہوں پر بمباری کر رہا تھا عین اسی وقت امریکہ مشرقی شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہا تھا۔ روس نے امریکہ اور اقوام متحدہ کی حمایت سےمغربی شام کے مختلف حصوں میں جنگ بندی کرادی، حزبِ اختلاف کے گروہوں کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں باندھ دئے گئے تھے اس لئے وہ آسانی سے سیز فائر پر رضامند ہوگئے۔ لیکن 2016 سے 2018 تک شامی حکومت نے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد ان علاقوں پر ایک ایک کر کے روس، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے قبضہ کر لیا، 2019 میں صرف ادلب ہی بچا تھا، جو حزبِ اختلاف کے کنڑول میں بچا تھا۔ جیسے جیسے شامی حکومت کے باغی کمزور ہوتے گئے ویسے ویسے شامی حکومت مذاکرات سے دور ہوتی چلی گئی۔ بہر حال 2013 اور 2015 میں جب بشار حکومت کمزور پڑگئی تھی تو ایران اور روس نے اسے گرنے سے بچا لیا تھا۔ اس عرصے میں شامی حکومت مذاکراتی عمل میں شامل تو ہوتی رہی لیکن اس نے یہ موقف اپنا ئے رکھا کہ وہ اختیارات کی تقسیم کے کسی بھی فارمولے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندہ De mistura نے حکومت کی تبدیلی کی بجائے ملک کے آئین میں تبدیلی کے لئے مذاکرات کا آغاز کیا لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ روس و ایران اور شام اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جہادی گروہوں کو سیاسی مذاکرات میں شامل نہیں کرنا چاہئے، اور نہ ہی اختیارات کی تقسیم کے کسی فارمولے کا ان کو حصہ ہونا چاہئے، ایسے ماحول میں اقوام متحدہ کی جانب سے ہونے والے مذاکرات کا کامیاب ہونا ناممکن دکھائی دیتا تھا ، جس کی وجہ سے شام میں جاری جنگ کا خاتمہ دور سے دور نظر آرہا ہے۔ دمشق سمیت ملک کے مغربی حصوں میں بشار حکومت کی حمایت موجود ہے، امریکہ اور ترکی کے زیرِ قبضہ علاقے اب بھی خطرناک ہیں، شامی حکومت کم از کم شمال اور مشرق میں کسی صورت بھی طویل مدت کے لئے غیر ملکی فوج کی موجودگی قبول کرنے کو تیار نہیں، جب تک حکومت کی دمشق پر قبضہ برقرار ہے اور ایران و روس سمیت اس کے اتحادی موجود ہیں تب تک وہ ترکی اور امریکہ کو اپنے خطے سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہے گی۔ يَخْرُجُ رجلٌ يُقَالُ له السُّفياني في عُمقِ دِمَشق و عَامَّةُ من يَّتَّبِعهٗ مِن كَلْب فيَقْتُلُ حتّیٰ يَبقُرَ بُطُونَ النِّسَاءِ و يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ فتَجْمَعُ لَهُمْ قَيسٌ فَيَقتُلُهَا حَتّیٰ لَا يَمنَعَ ذَنَبُ تَلعَةٍ و يَخْرُجُ رجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي في الحَرَم فَيبْلُغُ السّفيَانِيَّ فَيَبْعَثُ إِلَيْهِ جُنْدَاً مِنْ جُنْدِهِ فَيَهْزِمُهُمْ، فَيَسِيرُ إِلَيْهِ السُّفْيَانِيُّ بِمَنْ مَعَهُ حَتَّى إِذَا صَارَ بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ، فَلَا يَنْجُو مِنْهُمْ إِلَّا المُخْبِرُ عَنْهُمْ.(مستدرك حاكم) ترجمہ: دمشق سے ایک شخص نکلے گا جسے سفیانی کہا جاتا ہوگا، اس کے پیچھے لگنے والے لوگوں کی اکثریت قبیلہ کلب کی ہوگی، وہ قتل کرتا رہے گا یہاں تک کہ خواتین کے پیٹ کو چاک کرے گا، بچوں کو قتل کرے گا، قبیلہ قیس لڑائی کے لئے جمع ہوگا، یہ اُن کاایسا قتل عام کرے گا کہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ پھر میرے اہلِ بیت میں سے ایک شخص حرم سے نکلے گا، سفیانی کو جب اس کی خبر پہنچے گی تو وہ اس کےخلاف ایک لشکر بھیجے گا، جنہیں وہ شخص شکست دے دے گا، پھر سفیانی اپنے افواج کے ساتھ خود نکل کر چلے گا، جب وہ مقام ”بیدا“ تک پہنچ جائے تو سارے لشکر والوں کو دھنسا دیا جائے گا، اور ان میں صرف وہی بچے گا جو ان کے بارے میں خبر دینے والا ہوگا“(امام حاکم نے اس کو صحیحین کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور علامہ ذہبیؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے) اگر بشار الاسد ہی سفیانی ہو جیسا کہ دوسری علامات سے بھی معلوم ہوتا ہے تو اس روایت کے مطابق تو اس کی قتل و غارت گری جاری رہے گی جب تک حرم میں ایک شخصیت ظاہر نہ ہوجائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخصیت کون ہوسکتی ہے؟ یہ شخصیت امام مہدی ہی ہیں، کیونکہ امام ہی حرم مکی میں پناہ لینے والے ہوں گے۔ آپ کو دوسری روایات میں العائذ بمكة کہا گیا ہے۔ سفیانی آپ کے خلاف کارروائی کے لئے فوج بھیجے گا جسے اللہ تعالیٰ مدینہ کے قریب بیدا میں زمین میں دھنسا دیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟