امام مہدی حسنی ہوں گے یا حسینی

اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ آپ حضرت حسن کی اولاد میں سے ہوں گے یا حضرت حسین کی اولاد میں سے؟ اکثر روایات سے امام مہدی کا حضرت حسن کی اولاد میں سے ہونا ثابت ہوتا ہے۔ نَظَرَ عَلِيٌّ إلی الحسنِ رضي اللّٰه عنهما فقال: إِنَّ ابني هٰذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاه رسولُ الله ﷺ سَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِه رَجُلٌ باسمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِي الْخُلُقِ وَلَا يُشْبِهُهُ فِي الْخَلْقِ ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا. (أخرجه أبوداود ۴۲۸۹ ، و الترمذي والنسائي في سننه) حضرت علی نے اپنے بیٹے حضرت حسن کو دیکھ کر فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے جیسا کہ اسے رسول اللہ نے سردار قرار دیا ہے، اس کی اولاد میں تمہارے نبی کے نام کا ایک شخص نکلے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔ دوسری طرف بعض روایات سے آپ کا حسینی ہونا معلوم ہوتا ہے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ نے خطبہ دیا اور آنے والے حالات کا تذکرہ کیا، پھر فرمایا: لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ ذٰلِكَ الْيَوْمَ حَتّیٰ يَبْعَثَ فِيْه رَجُلًا من ولدي اسمُه اسمي (الحلية لأبي نعيم إسناده ضعيف جدا) ”اگر دنیا کا صرف ایک دن باقی رہ جائے تو اللہ اس دن کو اتنا لمبا کردے گا کہ میری اولاد میں سے ایک شخص بھیج دے گا جن کا نام میرے نام جیسا ہوگا“ اس پر حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ شخص آپ کی کون سی اولاد میں سے ہوں گے؟ تو آپ نے حضرت حسین عنہ پر دستِ مبارک مار کر فرمایا: ان کی اولاد میں سے۔ علامہ برزنجیؒ نے ایک روایت نقل کی ہے؛ و يَسِيرُ المَهدِيُّ بالجُيوشِ حتّیٰ يصِيرَ بوادي القُریٰ و هو من المدينةِ علی مرحَلَتَينِ إلی جهةِ الشام في هدوء و رِفقٍ و يَلحَقُه هُنَاكَ ابنُ عَمِّه الحَسَنِيُّ في اثنَي عَشَرَ الفًا فَيَقُولُ لَه يا ابن عما أَنَا أَحَقُّ بهٰذَا الأمرِ مِنْكَ، أَنَا ابنُ الحَسَنِ و أَنَا المَهدِيُّ فَيَقُولُ لَه المَهدِيُّ بَل أَنَا المَهْدِيُّ فَيَقُولُ الحَسَنِيُّ هَلْ لَكَ مِنْ آيَةٍ فَأُبَايِعكَ؟ فَيُؤمِيْ المَهدِيُّ عليه السلام إلی الطَّيرِ فَيَسْقُطُ علیٰ يَدَيه و يَغْرِسُ قَضِيْبًا يَابِسًا فِي بُقعَةٍ مِّنَ الأرضِ فَيَخْضَرُّ و يُورِقُ، فَيَقُولُ الحَسَنِيُّ يَا ابنَ عَمِّيْ هِيَ لَكَ. (الإشاعة لأشراط الساعة) حضرت امام مہدی اپنی فوج کے ساتھ چلتے ہوئے وادی القری تک پہنچیں گے، جو کہ مدینہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے دو مرحلوں کے فاصلے پر ہے۔ وہاں ان کے چچا زاد حسنی بھائی بارہ ہزار لشکر کے ساتھ ملیں گے، اور کہیں گے! میں حسن کا بیٹا ہوں اور مہدی ہوں اس لئے میں اس امرِ خلافت کا تم سے زیادہ حق دار ہوں، امام مہدی کہیں گے! نہیں، مہدی تو میں ہوں۔ وہ حسنی کہیں گے! آپ کے پاس کوئی نشانی بھی ہے جسے دیکھ کر میں آپ کی بیعت کروں؟ اس پر امام مہدی ایک پرندے کی طرف اشارہ کریں گے، وہ ان کے سامنے آگرے گا، اور ایک خشک لکڑی زمین کے ایک حصے میں گاڑیں گے تو وہ اسی وقت سرسبز ہوجائے گا، اور برگ و بار لانے لگے گا، یہ دیکھ کر حسنی کہیں گے کہ اے میرے چچا زاد بھائی! یہ آپ ہی کا حق ہے۔ حسنی کیوں؟ ملا علی قاریؒ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں اس تعارض کا حل پیش فرمایا ہے۔ و اخْتُلِفَ في أَنَّه مِن بَنِي الحَسَنِ أو مِنْ بَنِي الحُسَيْنِ، و يُمْكِنُ أَن يَكُونَ جَامِعا بَيْنَ النِّسْبَتَينِ الحُسْنَيَيْنِ و الأَظْهَرُ أَنَّه مِنْ جِهَةِ الأَبِ حَسَنِيٌّ و مِنْ جِهَةِ الأُمِّ حُسَينِيٌّ قِيَاسًا علیٰ مَا وَقَعَ فِي وَلَدَيْ إبْرَاهِيْم وهما إِسْمَاعِيل وَإِسْحَاق عَلَيْهِم السَّلَام حَيْثُ كَانَ أَنْبيَاء بني إِسْرَائِيل كلهم من بني إِسْحَاق وَنَبِي من ذُرِّيَّة إِسْمَاعِيل نَبينَا عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وَقَامَ مقَام الْكل وَنعم الْعِوَض وَصَارَ خَاتم الْأَنْبِيَاء فَكَذَلِك لما ظَهرت أَكثر الْأئمة واكابر الْأُمَّةِ من أَوْلَاد الْحُسَيْن فَنَاسَبَ ان يتَخَيَّر الْحسن بِأَن أعْطي لَهُ ولد يكون خَاتم الاولياء وَيقوم مقَام سَائِر الاصفياء. (مرقاة المفاتيح) امام مہدی کے حسنی یا حسینی ہونے میں اختلاف ہے، ظاہر یہ ہے کہ آپ والد کی جانب سے حسنی ہوں گے (اور نسب والد کی جانب سے شمار ہوتا ہے) اور والدہ کی جانب سے حسینی ہوں گے، یعنی آپ کی والدہ کا نسب حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہوگا، گویا آپ نجیب الطرفین سیّد ہوں گے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے: حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہما السلام، بنی اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے صرف رسول اللہ تشریف لائےلیکن وہ سب کے امام اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اسی طرح ائمہ عترت اور اکابرِ امت حضرت حسین کی اولاد سے ہوئے تو مناسب ہوا کہ حضرت حسن کی اولاد میں سے بھی ایک ایسا شخص آئے جو سب کا قائم مقام ہو کر ”خاتم الاولیاء و المجددین“ قرار پائے، اس کے لئے حضرت امام مہدی کا انتخاب ہوا۔ حضرت امام مہدی کے حضرت حسن کی اولاد سے ہونے کی دوسری وجہ ملا علی قاریؒ نے یہ بیان کی ہے کہ حضرت حسن نے حضرت معاویہ کے حق میں دستبردار ہو کر خلافت چھوڑ دی تھی، جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد میں آخر زمانے کے خلیفہ حضرت امام مہدی رکھ دیا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے کسی چیز کو چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے بہتر چیز بدلے میں عطا کردیتے ہیں۔ مشابہت کی ایک اور وجہ بھی ہے، وہ یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جو رسول اللہ کے جدّ اکبر ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے ہیں، اسی طرح حضرت حسن جو امام مہدی کے جدّ اکبر ہیں وہ بھی حضرت علی کے بڑے بیٹے ہیں۔ بنو اسرائیل کے سارے انبیاء علیہم السلام چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے آئے، اسی طرح سارے ائمہ عترت چھوٹے بیٹے حضرت حسین کی اولاد سے آئے۔ نبی اکرم کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ۝۱۰۱﴾ ”ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی“ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حلم کی برکت تھی کہ آپ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء علیہ السلام کو بھیجا جنہیں اللہ تعالیٰ نے عظیم اخلاق سے متصف فرمایا: ﴿وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝۴﴾”آپ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہیں“ انہی اخلاق کی بدولت اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانیت کے واسطے نبی بنایااور آپ کو خاتم النبیین کے مقام پر فائز فرمایا۔ ائمہ عترت کے جد اعلیٰ سیدنا حسن کو بھی اللہ تعالیٰ نے ”حلم“ کی صفت سے نوازا تھا، نبی اکرم کا ارشاد ہے: أمَّا الحَسَنُ فَانْحَلَهُ الهَيْبَةَ و الحِلْمَ اور ایک روایت میں ہے: هَيْبَتِيْ و سُؤْدَدِيْ وَ أَمَّا الحُسَيْنُ فَانْحَلَهُ الجُودَ والرَّحْمَةَ اور ایک روایت میں ہے فَلَه جُرأَتِيْ وَ جُودِيْ. (بحار) سیدنا حسن کو اللہ تعالیٰ نے ہیبت ، بردباری اور سرداری کی صفات عطا فرمائیں، جبکہ سیدنا حسین کو اللہ تعالیٰ نے سخاوت و رحمت اور جرأت کی صفات عطا فرمائیں، حضرت حسن کی اسی صفتِ حلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد میں عظیم ترین صفات کے مالک امام مہدی کو پیدا فرمانا طے کیا، جن کے بارے میں اللہ کے رسول کا ارشاد ہے: خُلُقُه كَخُلُقِيْ، اور يُشْبِهُنِيْ خُلُقًا وَ لَا يُشْبِهُنِيْ خَلْقًا اخلاق میں میرے جیسے ہوں گے اور شکل و صورت میں میری طرح نہیں ہوں گے۔ انہی اخلاق کی بدولت اللہ تعالیٰ نے حضرت امام مہدی کو بھی ایسی قیادت سے نوازا جو پوری امت پر ہوگی۔ آپ کے بارے میں متعدد روایات میں ایسے الفاظ ہیں جو آپ کے سب پر اقتدار حاصل کرنے پر دلالت کرتے ہیں، جیسے يَمْلِكُ الأَرْضَ، يَمْلِكُ النَّاسَ، و سَيَمْلِكُهَا خَامِسٌ مِنْ أُمَّتِيْ و هُوَ المَهْدِيُّ. پس جس طرح خاتم الانبیاء رسول اللہ ہیں اسی طرح خاتم الاولیاء اور خاتم الائمہ حضرت امام مہدی ہیں۔ بنو اسرائیل نبی اکرم کی بعثت سے پہلے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ آخری نبی اُن میں سے ہوں گے یعنی بنو اسرائیل میں سے ہوں گے، اور اسی وجہ سے وہ شام چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرچکے تھے، نبی اکرم کے بارے میں سب سے زیادہ علم انہی کے پاس تھا، علامات و نشانیوں سے یہ لوگ آپ کو ایسے پہچان رہے تھے جیسے اپنے بیٹے کو، لیکن جب نبی اکرم عربوں میں تشریف لائے جو بنو اسماعیل ہیں تو وہی یہودی آپ کے بدترین مخالف بن گئے۔ اور ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ شرفِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ اور آخر زمانے میں اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کا ساتھ دیں گے۔ حضرت حسین کے نام لیوا شیعہ بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ حضرت امام مہدی حسن عسکری کے بیٹے ہیں جو آپ کی اولاد میں ہیں، اور گزشتہ ۱۲۰۰ سال سے غائب ہیں۔ لیکن جب وہ تشریف لائیں گے تو ان میں سے متعصب لوگ آپ کے مخالف بن جائیں گے اور آپ کے خلاف دجال کے ساتھی بنیں گے، اصفہان ایسے ہی لوگوں کا گڑھ بنا ہوا ہے جہاں یہود کے ساتھ ایسے متعصب بھی رہ رہے ہیں۔ حالانکہ حضرت امام مہدی کے متعلق زیادہ علم انہی کے پاس ہے، جو آج کل حضرت حسین کے نام لیوا ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟