ظہور امام مہدی اور ضعیف روایات

علاماتِ قیامت کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کی اہمیت اس سے واضح ہوتی ہےکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جب انسانی شکل میں آکر نبی اکرم سے سوالات کئے اور آپ نے ان کے جواب دئے، ان کے ناے کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ ان میں ایک سوال علاماتِ قیامت سے بھی متعلق تھا، اسی وجہ سے اہلِ علم اس کو دین کا رکنِ رابع قرار دیتے ہیں۔ رسول اللہ نے تفصیل کے ساتھ علاماتِ قیامت کی خبر دی ہے۔

آخر زمانے کی ایسی بہت سی نشانیاں ہیں جو مستند و صحیح احادیث میں منقول ہیں۔ البتہ ان میں ایک کثیر تعداد کی احادیث ایسی بھی ہیں جن پر علمائے حدیث نے ضعف کا حکم لگایا ہے۔ بالخصوص ظہور امام مہدی کے حوالے سے ایسی بہت سی روایات و آثار ہیں احادیث جو نعیم بن حماد کی کتاب الفتن، امام حاکم کی مستدرک، یوسف بن یحیی السلمی الشافعی کی عِقد الدرر میں منقول ہیں۔ جن پر علما نے کلام کیا ہے، اور ان پر ضعف کا حکم لگایا ہے۔

اس لئے ظہور مہدی کے موضوع سے متعلقہ روایات پر ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ظہور مہدی کی احادیث ضعیف ہیں، اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ صرف صحیح یا حسن احادیث کو ہی سامنے رکھنا چاہئے۔ اس بارے میں ضعیف روایات سے استدلال کرنا اور مہدویت کا فہم ان پر موقوف کرنا درست نہیں ہے۔

اس مقالےن میں ہم علاماتِ قیامت بالخصوص امام مہدی کے متعلق ضعیف احادیث کے بارے میں کلام کریں گے، کہ ضعیف احادیث کا بیان بھی جائز ہے اور ان سے استدلال بھی جائز ہے۔ اور یہ کہ ان کا ضعف دوسرے موضوعات سے متعلق روایات کے ضعف جیسا نہیں ہے، ان روایات کا ضعف شواہد و کثرت طرق کی وجہ سے منجبربھی ہوجاتا ہے۔ اس کے کچھ سیاسی و تاریخی اسباب ہیں۔ نیز خارجی واقعات اور موجودہ حالات ان میں سے بہت سی روایات کی تصدیق کرتے ہیں جو اس کے صحیح المتن ہونے کی دلیل ہے۔

اس لئے اس قسم کی روایات کو ضعیف کہہ کر یکسر نظر انداز کردینا درست رویہ نہیں ہے۔ بلکہ ان میں ایک ایک روایت روشنی کا مینار ہے، جسے دیکھ کر اپنے رُخ کے صحیح ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر روایت ایک ایسی پیشین گوئی ہے جو ہزارہا تجزیوں اور تحقیقات سے بھاری ہے، جس کے اوپر بلاشبہ مستقبل کی پوری عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ کم از کم اپنے قیاس و اندازے کی بہ نسبت روایات کو سامنے رکھنا زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ انہیں درخوراعتنا نہ سمجھنا علم کے ایک عظیم باب سے اپنے آپ کو محروم بنانا ہے۔

 

 

ضعیف روایات کا بیان جائز ہے

أشراط الساعة اور ظہور امام مہدی کے بارے میں منقول روایات چاہے وہ ضعیف ہوں ان کا بیان کرنا جائز ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کے متعلق یہ ضابطہ لکھا ہے کہ: 


 قال الإمام السيوطي: و يجوز عند أهل الحديث و غيرهم التساهل في الأسانيد الضعيفة و رواية ماسوی الموضوع من الضعيف والعمل به من غير بيان ضعفه في غير صفات الله تعالیٰ (تدريب الراوي) 


”محدثین کے نزدیک ضعیف سند میں تساہل جائز ہے، اور موضوع روایات کے علاوہ ضعیف روایات کی نقل اور اس پر عمل بھی جائز ہے۔ اس کے ضعف کا بیان کئے بغیر، اللہ تعالیٰ کی صفات کے علاوہ دیگر موضوعات میں (یعنی عقائد میں)“


علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے متعدد محدثین کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث قابلِ قبول ہیں۔ (اور علامات قیامت و ظہور امام مہدی بھی اسی قبیل سے ہیں)


و لِيُعلَم أنَّ ممن نصَّ  علی قبول الحديث الضعيف في فضائل الأعمال أحمد بن حنبل و غيره واختاره جمع عظيم من المحدثين، و صرح ابن سيد الناس في سيرته، و علي القاري في (الحظ الأوفر) و في كتاب (الموضوعات) والسيوطي في المقامة (السندسية) و في رسالته (التعظيم والمنة) و في رسالته (طلوع الثريا)، والسخاوي في (القول البديع)، و العراقي في ألفيّته، والنووي في الأذكار و في التقريب، و شراح الألفية كالسخاوي و شيخ الإسلام زكريا الأنصاري و غيرهما و الحافظ ابن حجر و ابن الهمام في كتابه (تحرير الأصول) و في (فتح القدير) و غيرهم ممن تقدم عليهم أو تأخر. (شرح مختصر الجرجاني عبد الحي اللكنوي) 


حديث کا ضعف عموما راوی کے فاسق ہونے یا حافظہ کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی یقینی نہیں ہے کہ وہ اپنی ہر روایت میں ان دو خرابیوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہو بلکہ اس کا امکان ہے کہ ایسا متہم راوی کسی ضعیف روایت کے بیان میں سچا ہو، یا کمزور حافظے والے راوی نے اسے محفوظ رکھا ہو۔ اس لئے کسی روایت کا ضعیف ہونا اس کے جھوٹا ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ وہ سچی بھی ہوسکتی ہے، بالخصوص جب دیگر شواہد اور واقعات سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہو۔


قال ابن تيمية في مجموع الفتاوی: والضعيف الذي رواه من لم يُعلَم صِدقُه إلا لسوءِ حفطِه و إِمَّا لاتِّهَامه و لكن يُمكِنُ أَن يكونَ صَادِقا فيه فَإِنَّ الفَاسِقَ قَدْ يَصدُقُ والغالطَ قد يَحْفَظُ. 


”وہ ضعیف روایت جسے ایسے راوی نے روایت کیا ہو جس کے صدق کا علم نہیں ہے یا اُس کے یادداشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے یا اُس کے متّہَم ہونے کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ اس روایت میں سچا ہو، کیونکہ فاسق بھی سچ بول سکتا ہے اور خطا ہونے والا شخص کبھی روایت کو محفوظ رکھ لیتا ہے۔ “


یہی بات علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تدریب الراوی میں لکھی ہے کہ حدیث کے ضعیف ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں جھوٹی ہے، کیونکہ جھوٹا شخص بھی سچ کہہ سکتا ہے اور خطا ہونے والا درست بھی ہوسکتا ہے۔ 


معناه: لم يَصِحّ إِسْنَادُه علی الشرط المذكور لا أَنَّه كَذِبٌ في نفس الأمر، لجواز صدق الكاذب و إصابة من هو كثير الخطا (تدريب الراوي)


علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس پر محدثین کا اجماع نقل کیا ہے کہ فضائل وغیرہ میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے۔ (علاماتِ قیامت بھی اس میں داخل ہے۔ )


و في فتاوی الرملي: حكی النووي في عِدَّة من تصانيفه إجماعَ أهلِ الحديثِ علی العمل بالحديث الضعيف في الفضائل و نحوها خاصة. 




سیاسی حالات

فتن و آخر زمانے کی روایات پر شروع زمانے کے سیاسی حالات کا بھی کافی گہرا اثر ہے۔ ہم ان سیاسی حالات کا جائزہ لیں گے جو اس وقت راویوں کو درپیش تھے جس نے ان احادیث کی نقل پر اثر ڈالا، اور جس ماحول میں وہ روایات نقل کرتے تھے اس کا کچھ اندازہ لگاتے ہیں۔ 


عن أبي هريرة قال: حَفِظْتُ مِن رَّسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عليه وآله وسلم وِعَاءَيْنِ فَأَمَّا أحَدُهُمَا فَبَثَثْتُه، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُه قُطِعَ هٰذَا البُلْعُوْمُ (أخرجه البخاري برقم (۱۲۰).


حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن محفوظ کر رکھے ہیں۔ ایک برتن تو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرے کو بھی میں اگر اسی طرح پھیلا دوں تو میری یہ گردن کاٹ دی جائے گی۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے برتن میں کس موضوع کے متعلق احادیث تھیں جن کے پھیلانے پر انہیں جان کا خطرہ تھا؟

یقینا یہ احادیث عبادات و اذکار کے متعلق نہیں تھیں، نہ ہی احکام یا غزوات و سیرت کے بارے میں تھیں۔ نہ ہی مواعظ و مناقب کے قبیل سے تھیں کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ انہیں پھیلا چکے تھے اور خوب خوب ان کی اشاعت کر چکے تھے، اس لئے کہ آپ سے منقول روایات کی تعداد 5374 ہے، جن میں ہر موضوع سے متعلق روایات شامل ہیں۔ نیز ان موضوعات سے متعلق روایات دوسرے صحابہ نے بھی بیان کی تھیں، اگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان روایات کے بیان سے خطرہ تھا تو دوسرے صحابہ کرام کو بھی یقینا یہ خطرہ لاحق تھا۔

یہ روایات آخر زمانے کے فتنوں، جنگوں اور حضرت امام مہدی کے متعلق تھیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علما نےاس برتن سے وہ احادیث مراد لی ہیں جن میں بدترین امراء اور حکام کے نام، ان کے حالات اور زمانے کا تذکرہ تھا۔


قال ابن حجر: وحَمَلَ العُلماءُ الوعاءَ الذي لم يَبُثَّه علَى الأحاديث التي فيها تبيينُ أَسَامِي أُمَرَاء السُّوءِ وأَحْوَالُهُم وزَمَنُهم. (فتح الباري (۱/۲۱۶)


علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی یہ فرمایا ہے کہ وہ برتن جس سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھلے عام بیان نہیں فرماتے تھے وہ فتنوں، جنگوں اور لوگوں کی باہمی لڑائیوں کی پیشن گوئیاں تھیں۔ 


وقال ابن كثير: وهذا الوعاء الذي كان لا يتظاهر به هو الفتن والملاحم وما وقع بين الناس من الحروب والقتال. البداية والنهاية (۸/۱۱٤).


دراصل اس وقت کے حکام کو ان احادیث کی روایت سے یہ خطرہ تھا کہ کہیں لوگ ان کی وجہ سے ہمارے خلاف بغاوت نہ کریں، کیونکہ ان روایات میں ظالم اور جابر حکام کے ناموں تک کی تعیین موجود تھی، جس کی وجہ سے انہیں لوگوں اور خصوصا اہلِ بیت سے خطرہ ہوتا تھا۔ بلکہ وہ بار بار بغاوت کے لئے کھڑے بھی ہوئے تھے۔ جبکہ خلفا کا مقصود یہ تھا کہ ملوکیت پر مشتمل نظام کو ایک ایسی شرعی خلافت باور کرائیں جو نبوی طریقے پر قائم ہو، جس طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت تھی۔ لیکن ان جیسی روایات کی وجہ سے انہیں بہرحال اس مقام سے محروم ہونا پڑتا تھا جو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں بزورِ تلوار قائم کر رکھا تھا۔


ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسی روایات کا بیان جن میں ظالم حکمرانوں کے ناموں اور زمانے وغیرہ کا ذکر ہو یہ شک پیدا کرسکتا تھا کہ راوی نے اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر کہیں یہ روایات گھڑ کر نہ بنائی ہوں، کیونکہ انہیں یہ یقین نہیں ہوسکتا تھا کہ نبی اکرم نے اتنی وضاحت کے ساتھ اس زمانے کے حالات بیان فرمائے ہوں گے۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بن يحيى بن سعيد الأموي، عن جده قال: كنت مع مروان وأبي هريرة، فسمعت أبا هريرة يقول: سمعت الصادق المصدوق يقول: (‌هلاك ‌أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ). فَقَالَ مروان: غلمة؟ قال أبو هريرة: إن شئت أن أسميهم بني فلان وبني فلان. (صحيح بخاري ۳٤۱۰)


عمرو بن یحیی بن سعید اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں مروان اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے کہ میری امت قریش کے چند لونڈوں کی وجہ سے ہلاک ہوگی۔ تو مروان نے کہا؛ لونڈے؟ تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا؛ اگر تم چاہو تو میں ان کے اور ان کے والد کے نام تک بتادوں۔ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نام و نسب کی حد تک تعیین کا علم یقینا رسول اللہ سے ہوا تھا۔ اور آپ بنو امیہ کی حکومت میں نوجوانوں کی اقتدار تک رسائی کو اس کا مصداق سمجھتے تھے۔ لیکن ظلم کے خوف سے آپ علی الاعلان نام نہیں لیتے تھے۔

ان خبروں کا علم صرف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ علاماتِ قیامت اور مستقبل کی پیشن گوئیوں کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ نے دوسرے صحابہ کی موجودگی میں کیا تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ:


عن حذيفة رضي الله عنه قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَاماً مَا تَرَكَ شَيْئاً يكون في مَقَامِه ذٰلِكَ إلى قِيَام السَّاعَةِ إلاّ حَدَّثَ به، حَفِظَه مَنْ حَفِظَه ونَسِيَه مَن نَسِيَه، قَدْ عَلِمَه أَصْحَابي هٰؤُلاء وإِنَّه لَيَكُونُ منه الشيءُ قَد نَسِيْتُه فَأَرَاه فأَذْكُرُه كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عنه ثُمَّ إِذَا رَآه عَرَفَه. رواه البخاري ۶۶۰٤  ومسلم ۲۸۹۱)


حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیا، اور قیامت تک پیش آنے والے ہر (اہم) واقعے کو ذکر کئے بغیر نہیں چھوڑا۔ جس نے یاد رکھا اُس نے یاد رکھ لیا اور جو بھو ل گیا وہ بھول گیا۔ میرے یہ ساتھی جانتے ہیں۔ میں (ان واقعات میں سے) کسی چیز کو بھول جاتا ہوں لیکن دیکھ لینے کے بعد پھر پہچان لیتا ہوں جیسا کہ کوئی شخص دوسرے شخص کو غائب ہونے کے بعد دیکھ لے تو پہچان لیتا ہے۔


عن أبي زيد عمرو بن أخطب الأنصاري رضي الله عنه قَالَ صلَّى بِنَا رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم الفجرَ، وصَعِدَ المِنْبَرَ، فخَطَبَنَا حتّٰى حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فنَزَلَ فصَلّى، ثم صَعِدَ المِنْبَرَ فخَطَبَنَا حتّى حَضَرِتِ العصرُ، ثمَّ نَزَلَ فصَلّى، ثم صَعِدَ المِنْبَرَ فخَطَبَنَا حتى غَرَبَتِ الشمسُ، فأَخْبَرَنَا بما كَانَ وبما هو كائنٌ، فأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا.(مسلم ۲۸۹۲)


حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، اور منبر پر چڑھ گئے اور ہمیں اتنا طویل خطبہ دیا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ آپ منبر سے نیچے اترے، نماز پڑھی اور پھر منبر پر چڑھے، خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا۔ آپ نیچے اترے نماز پڑھی اور منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا یہاں تک سورج غروب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے گزشتہ اور آئندہ آنے والے واقعات کی ہمیں خبر دی۔ ہم میں سے سب سے بڑا عالم وہ تھا جو (ان واقعات کو) سب سے زیادہ محفوظ رکھنے والا تھا۔


اتنی تفصیلی واقعات امت سے کیسے ضائع ہوسکتے تھے، اس لئے صحابہ کرام نے مختلف طریقوں سے انہیں روایت کر کے امت تک یہ امانت پہنچائی، آج جب کسی روایت کا عملی ثبوت اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھتے ہیں تو لوگ یقین نہیں کرتے اور سند کی بحثوں میں پڑ کر اصل پیغام بھول جاتے ہیں۔  


ضعف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ظالم امرا یا فتنوں کے سرغنوں اور اوقات کی اتنی صراحت کے ساتھ تعیین پر لوگ اعتماد نہیں کریں گے، اور آپ کو جھوٹا یا مجنون سمجھیں گے۔ 


عن أبي هريرة أنّه كان يقول: لو أنبأتُكم بكلّ ما أعلم لَرَمانى الناسُ بالخزف وقالوا: أبو هريرة مجنون (الطبقات الكبری )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے؛ اگر میں ہر وہ بات تمہیں بتلادوں جو میں جانتا ہوں تو لوگ مجھے ٹھیکریوں سے ماریں گے اور کہیں گے کہ ابوہریرہ پاگل ہوگیا ہے۔ 

حضرت امام مہدی کا ظہور آخر زمانے میں جبر و ظلم کے زمانے میں ہوگا، خیر القرون میں بھی ظالم حکام اور جابر سرداروں کو یہ بات منظور نہیں تھی کہ ایسی روایات بیان کی جائیں جن سے ان کے اقتدار کو خطرہ درپیش ہو اور لوگ امام مہدی کی طرف نگاہ اٹھائیں۔ اس لئے اس وقت ان جیسی روایات کی نقل و روایت خفیہ ہوتی تھی، جس کی وجہ سے اس کا امکان تھا کہ کچھ غیر معروف راوی انہیں نقل کرنے والے ہوں۔ چونکہ ان کی چھان پھٹک مشکل تھی اور محدثین عام اصول کے تحت ان پر ضعف کا حکم لگاتے تھے، اس لئے ان میں ضعیف دَر آیا۔ واللہ اعلم

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ مَجْنُونٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: كُنْتُ فِي بَيْتِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: أَغْلِقُوا الْبَابَ ثُمَّ قَالَ: هَاهُنَا مِنْ غَيْرِنَا أَحَدٌ؟ قَالُوا: لا وَكُنْتُ فِي نَاحِيَةٍ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّايَاتِ السُّودَ تَجِيءُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ ‌فَأَكْرِمُوا ‌الْفُرْسَ، فَإِنَّ دَوْلَتَنَا فِيهِمْ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ: أَفَلا أُحَدِّثُكَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: وَإِنَّكَ لَهَاهُنَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: حَدِّثْ، فَقُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِذَا خَرَجَتِ الرَّايَاتُ السُّودُ فَإِنَّ أَوَّلَهَا فِتْنَةٌ، وَأَوْسَطَهَا ضَلَالَةٌ، وَآخِرَهَا كُفْرٌ. (كتاب الفتن ٥٥۱) 


حضرت سلمہ بن مجنون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے گھر میں تھا، انہوں نے فرمایا دروازہ بند کرو۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا یہاں ہمارے علاوہ یہاں کوئی اور بھی ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ جبکہ میں لوگوں سے ہٹ کر ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ جب تم کالے جھنڈوں کو دیکھو کہ وہ مشرق کی جانب سے آگئےتو اہلِ فارس کا اکرام کرو، کیونکہ ہماری حکومت انہی میں ہے۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں آپ کو وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے رسول اللہ سے سنی ہے؟ یہ سنتے ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کیا آپ یہاں ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں، تو انہوں نے فرمایا سنائیے! میں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جب کالے جھنڈے نکل آئیں گے تو اس کی ابتدا میں فتنہ ہوگا، درمیان میں گمراہی ہوگی اور آخر میں کفر ہوگا۔ 

اس روایت کا مقام حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا گھر تھا، زمانہ غالبا بنو امیہ کی حکومت کا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی کا کسی کو علم نہیں تھا، اس وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو تعجب ہوا۔ فضائل الصحابة لابن حنبل میں ہے کہ یہ سارے لوگ بنو ہاشم کے تھے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ تم میں کوئی اجنبی یا جاسوس تو نہیں؟ تو لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے وہ نبی کے مہمان اور اصحابِ صفہ میں سے ہونے کی وجہ سے اجنبی نہیں سمجھتے تھے۔ موضوع سیاسی چل رہا ہوگا، اس وجہ سے انہوں نے پہلے دراوزے بند کروائے۔ اور تاکید کی کہ کوئی اور تو موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ روایت بیان فرمائی جو انہوں نے رسول اللہ سے سنی ہوگی۔ 

اس منظر سے خوف کی اس فضا کا کچھ اندازہ ہوجاتا ہے جس میں اُس وقت ملاحم و فتن کی روایات بیان کرنے والے گھرے ہوئے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تک اس سے متاثر تھے۔ اس وجہ سے ان روایات کی نقل خفیہ ہوتی تھی یا رمز و اشارے کے زبان میں ہوتی تھی، تاکہ سمجھنے والے سمجھ سکیں اور حکام سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دعائیہ انداز میں ایک پیشن گوئی فرمائی تھی۔ 

أن أبا هريرة كان يمشي في السوق ويقول: اللهم لا تُدرِكْنِيْ سَنَةُ سِتِّيْن، ولا إمارة الصبيان. (مصنف ابن أبي شيبة، بيهقي)

”آپ رضی اللہ عنہ بازار میں چلتے ہوئے دعا فرماتے؛ اے اللہ ! مجھے ساٹھواں سال اور بچوں کی حکومت نہ ملے۔ “

اس سے آپ کا اشارہ یزید کی حکومت کی طرف تھا، جس سے آپ نے پناہ مانگی، چنانچہ آپ کی یہ دعا پوری ہوئی اور یزید کی خلافت سے پہلے آپ انتقال کر گئے۔ بیہقی نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے سنی ہوگی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی تعیین اور صراحت کے ساتھ امت کو یہ پیشین گوئیاں بتائی گئی تھیں۔ لیکن حکام کے خوف نے ایسی فضا بنائی تھی کہ راوی چھپ کر روایات نقل کرتے تھے یا رمز و کنایہ کے انداز میں مفہوم پہنچا دیتے تھے۔ ایسے ماحول میں راویوں کے لئے صدق و عدالت اور ضبط کی کڑی شرائط لگانا اور ان روایات کے ساتھ بھی عقائد و احکام کی روایات کی طرح رویہ برتنا مناسب نہیں ہے۔

واقعات کا ضعیف روایات کی تصدیق کرنا

روایات کی صحت و استناد کی وہ تمام شرائط جو محدثین کرام لگاتے ہیں اپنی جگہ درست ہیں۔ اعتقادات و احکام کی روایات میں اس کی ضرورت تھی اور اسی احتیاط کی وجہ سے امت عقیدے و عمل کی گمراہیوں سے محفوظ رہی۔ لیکن فتن و اشراط الساعہ کا معاملہ مختلف ہے۔ ان موضوعات میں ضعیف روایات کوبیک جنبشِ قلم رد کرنا انصاف نہیں ہے۔ ان روایات کا ضعف حالات کے جبر کی وجہ سے بھی تھا جس کا کچھ تذکرہ گزر چکا ہے۔ اس لئے ان کا ضعف دوسری روایات کے ضعف کی طرح نہیں ہے۔ 

ان روایات کے رد و قبول کے لئے علما یہ کہتے ہیں کہ اگر اس قسم کی ضعیف روایات حالات پر صادق ہوجائیں اور واقعات ان کی تصدیق کریں تو انہیں صادق سمجھا جائے گا۔ روایت صحیح شمار ہوگی اور سند کا ضعف اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ مشہور سلفی عالم ”شیخ حمود التویجری:“ فرماتے ہیں۔


و بعضُ الأمورِ التي وَرَدَ الأَخْبَارُ بِوُقُوعِهَا لَمْ تُرْوَ إِلَّا مِن طُرُقٍ ضَعِيفَةٍ و قَدْ ظَهَرَ مِصْدَاقُ كَثِيرٍ مِّنْهَا و لَا سِيَّمَا فِي زَمَانِنَا و ذٰلِكَ مِمَّا يَدُلُّ علی صِحَّتِهَا فِي نَفسِ الأمر و كَفیٰ بِالوَاقِعِ شَاهِدًا لِثُبُوتِهَا وَ خُرُوجِهَا مِنْ مِشكوة النُّبُوَّةِ (إتحاف الجماعة في أشراط الساعة لحمود التويجري)


”آخر زمانے کے بعض واقعات ایسے ہیں جن کی پیشین گوئی ضعیف روایات میں کی گئی ہے لیکن اُن میں سے بہت سی خبروں کا مصداق ظاہر ہوچکا ہے بالخصوص ہمارے زمانے میں۔ یہ چیز نفس الامر میں ان روایات کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ اور یہ خارجی مصداق ان جیسی ضعیف روایات کی صحت اور مشکوۃِ نبوت سے منقول ہونے کا کافی ثبوت ہے۔ “


چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دورِ حاضر میں کتنے ہی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جو حیران کن طورپر ان روایات کا واضح مصداق بن رہے ہیں جنہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ جیسے خراسان سے نکلنے والے القاعدہ کے کالے جھنڈے جو افغانستانس سے نکلے تو کوفہ سے ہوتے ہوئے شام پہنچے، القاعدہ اور الدولہ کا باہمی اختلاف، شام میں ان کالے جھنڈوں کا حزب اللہ کے زرد رنگ کے جھنڈوں کے ساتھ لڑائی، شام میں بغاوت جس کی ابتدا سکول کے بچوں سے ہوئی، عراق میں صدام حسین کی پھانسی، مقتدی الصدر کا سامنے آنا، شامی صدر بشار الاسد، مصری آمر جنرل سیسی اور اردنی حکمران عبد اللہ کے اندر سفیانی کی علامات نظر آنا، جہیمان کا واقعہ جو 1979 میں حرم مکی میں پیش آیا، یمنیوں کی سعودی عرب سے جلاوطنی، یمن و سعودی جنگ، آل سعود کے مختلف افراد میں مختلف نشانیوں کا ظاہر ہونا، ان کا باہمی اختلاف اور بے دینی پھیلانا، امت میں فتنۃ الاحلاس، فتنۃ السرا اور فتنۃ الدہیما کا عام ہونا وغیرہ۔


خارج میں کسی واقعے کا ظاہر ہوجانا ایک ایسی قطعی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اگر ضعیف ترین حدیث میں بھی بیان ہونے والا کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو یہ اس کی صحت کی قوی ترین دلیل ہے۔ ایسی روایت سند سے مستغنی ہوجاتی ہے اور اس کے بعد اس پر کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


﴿وَ کَذَّبَ بِہٖ قَوۡمُكَ وَ هُوَ الۡحَقُّ ؕ قُلۡ لَّسۡتُ عَلَيۡکُمۡ  بِوَکِيۡلٍ ﴿ؕ۶۶﴾ لِکُلِّ نَبَاٍ  مُّسۡتَقَرٌّ ۫ وَّ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿الانعام ۶۷﴾ 

اور اے پیغمبر! تمہاری قوم نے اس (قرآن) کو جھٹلایا ہے، حالانکہ وہ بالکل حق ہے۔ تم کہہ دو: کہ مجھ کو تمہاری ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ہر واقعے کا ایک وقت مقرر ہے اور جلد ہی تمہیں سب معلوم ہوجائے گا۔ 


یعنی جس عذاب کو یہ لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں اس کے لئے ایک مقررہ وقت طے کردیا گیا ہے، جب وہ ان کے اوپر آپڑے گا تب انہیں یقین ہوجائے گا۔ ایسا ہی جس واقعے یا حادثے کا خارج میں وقوع ہوجائے تو جس طرح اس کے وقوع سے انکار ممکن نہیں اسی طرح روایت کی صحت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 


اس لئے ان جیسی روایات میں صرف سندی حیثیت سے بحث کرنا اور حالات (جن سے ان کی تصدیق ہوسکتی ہے) پر ان کی تطبیق کو یکسر نظر انداز کردینا حق و انصاف کے خلاف ہے، کیونکہ یہ روایات ایک پیغام ہیں جو اِس دور کے مسلمانوں کے لئے ہے کہ جب روایات میں مذکورہ واقعات پیش آجائیں تو ان کی روشنی میں اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کریں۔ اگر ان روایات کی تطبیق درست ثابت ہوتی ہے تو یہ ان کی صحت کی قوی دلیل بن سکتی ہے۔


تحریف شدہ کتاب حجت ہے تو ضعیف روایت کیوں نہیں؟


یہودی مدینہ میں نبی اکرم کی آمد سے کافی عرصہ پہلے آباد ہوگئے تھے، کیونکہ انہوں نے تورات میں نبی آخر الزمان کی آمد کے شہر کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ کھجوروں کی سرزمین میں تشریف لائیں گے۔ آپ کے بارے میں کافی تفصیلات تورات میں بلکہ انجیل میں بھی موجود تھیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 


﴿اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫  ﴾ (الأعراف ۱۵۷)

ترجمہ: ”جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ “


حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا طویل قصہ مشہور ہے کہ جب حق کی تلاش میں مختلف راہبوں سے ہوتے ہوئے آخری راہب کے پاس پہنچ گئے اور اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے آپ سے کہا:


أي بني! والله ما أعلمه بقي أحد على مثل ما كنا عليه آمرك أن تأتيه، ولكنه قد أظلك زمان نبي يبعث من الحرم، مهاجَره بين حرَّتين إلى أرض سبخة ذات نخل، وإن فيه علامات لا تخفى، بين كتفيه خاتم النبوة، يأكل الهدية، ولا يأكل الصدقة. (سيرة ابن اسحاق)


”بیٹے! اللہ کی قسم، اب میں ایسا کوئی شخص نہیں جانتا جو ہمارے جیسے دین پر ہو جس کے پاس جانے کا میں تمہیں حکم دوں۔ اب تو آخری نبی کا زمانہ سر پر آچکا ہے، جن کی بعثت حرم میں ہوگی۔ اور ہجرت دو حَرَّہ کے درمیان کھجوروں والی ریتیلی زمین کی جانب ہوگی، ان کی علامات پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان کے شانوں کے درمیان مہرِ نبوت ہوگی۔ وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقے کا مال نہیں کھائیں گے۔“


یہودیوں کے علما کے پاس نبی اکرم کی یہ علامات وہی تھیں جو ان کے پاس موجود تورات کے نسخوں میں تھیں۔ حالانکہ ان میں تحریف ہوچکی تھی، (اور اس لحاظ سے ان کا درجہ ضعیف احادیث سے بھی کم تر تھا)  اس کے باوجود وہ ان کی نقل و روایت کرتے تھے۔ اور انہی تفصیلات کی بنیاد پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ نبی اکرم کو ایسا جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔ اتنی وضاحت کے ساتھ معرفت تبھی ممکن ہے جب علامات و نشانیاں پوری تفصیل کے ساتھ بتائی گئی ہوں۔ جبکہ تورات و انجیل اس وقت بھی محرَّف تھی بلکہ ان کے علما نبی اکرم کی صفات میں بھی کچھ نہ کچھ تحریف کرچکے تھے۔ نبی اکرم کے بارے میں ان کے پاس موجود بچی کھچی جو نشانیاں تھیں وہ اسی تحریف شدہ کتاب سے ہی ملی تھیں، اور انہی کی بنیاد پر یہ لوگ مدینہ میں آکر بس چکے تھے۔ 


عن عاصم بن عمر بن قتادة الأنصاري عن أشياخ منهم قال: قالوا: فينا والله و فيهم يعني في الأنصار و في اليهود الذين كانوا جيرانهم نزلت هذه القصة، يعني وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ  ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَي الَّذِيۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫  قالوا: كنا قد علوناهم دهرا في الجاهلية، و نحن أهل شرك، و هم أهل كتاب فكانوا يقولون: إن نبيا سيُبعَثُ الآن نتبعه، قد أظل زمانه فنقتلكم معه قتل عاد و إرم، فلما بعثَ اللهُ رسولَه من قريش و اتبعناه كفروا به. (تفسير ابن كثير)


ترجمہ: حضرت عاصم بن عمر اپنے مشایخ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار اور ہمارے پڑوسی یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جاہلیت میں جب ہم کبھی ان پر غالب آجاتے اور ہم مشرک تھے اور وہ اہلِ کتاب تھے، وہ ہمیں کہتے تھے کہ ایک نبی اب مبعوث ہونے والے ہیں، اُن کے ساتھ مل کر ہم تمہیں عاد و ارم کی طرح قتل کریں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول قریش میں سے بھیجا اور ہم نے ان کی پیروی کی تو یہودیوں نے کفر کیا۔ 


نبی اکرم کی بعثت سے پہلے کی یہ وہی صورت حال تھی جو آج مسلمانوں کو درپیش ہے۔ کسمپرسی کے اس دور میں مسلمان ایک ایسے قائد کے منتظر ہیں جو انہیں کفر کے غلبے سے بھی نجات دے، اپنے اوپر مسلط اس ٹولے سے بھی خلاصی ملے جو غیروں کی غلامی میں ہر حد پار کرچکے ہیں۔ دین و شریعت کی تنفیذ کا خواب بھی پورا ہو، اور بدعات و سنت میں تمیز بھی ہو۔ 


اس طرح یہودی اس دور میں نبی اکرم کی آمد کے منتظر تھے۔ انہیں اپنے سیاسی غلبے کی بھی امید تھی، اور یہودیت میں میں دَر آئی بدعات سے پاک ہونے کی بھی آرزو تھی کہ نبی بدعات سے دین کو پاک کرکے اصلی شکل و صورت میں نکھار کر پیش کردیں گے۔ تحریفات سے کتاب اللہ کو پاک کریں گے۔


ایسے میں اس وقت اگر کوئی یہودی اٹھ کر یہ کہہ دیتا کہ ہماری کتاب تبدیل ہوچکی ہے اور اب یہ قابلِ اعتبار نہیں رہی اس لئے ان پر نہ تو یقین کیا جائے اور نہ اس کی روشنی میں کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے تو یہ بات عقل و فہم کے لحاظ سے کتنی وقیع ہوتی لیکن خارجی دنیا میں اس کا نقصان یہ ہوتا کہ بہت سے ربانی علمائے یہود و نصاری اور ان کے سچے پیروکار نبی اکرم پر ایمان لالنے سے محروم ہوجاتے۔ 


تورات و انجیل کی شہادت صرف یہودیوں یا عیسائیوں کے لئے نہیں تھی بلکہ دوسرے کفار کے لئے بھی ایک کافی ثبوت سمجھی گئی، حالانکہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل نہیں تھے۔ جب مکہ کے کفار نے رسول اللہ کی رسالت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی : 


﴿وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ  کَفٰی بِاللّٰہِ  شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ  عِلۡمُ  الۡکِتٰبِ﴾ (الرعد٤۴۳) 

کہ کافر جو آپ کی رسالت کا انکار کر رہے ہیں اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔ اللہ تعالیٰ بذاتِ خود آپ کی رسالت کا گواہ ہے، اور ہر وہ شخص جسے آسمانی کتابوں کا علم ہے اگر وہ انصاف کے ساتھ آنحضرت کے حالات کا جائزہ لے گا تو وہ بھی یہ گواہی دئے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ 


حضرت امام مہدی کے ظہور کے متعلق بہت سی روایات بھی از قبیل اسرائیلیات منقول ہیں، اور ان کا بھی حکم یہی ہے کہ انہیں بیان کرنا جائز ہے، اور جب خارجی حالات اس کی تصدیق کریں تو یہ اس کی صحت کی علامت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 


حَدِّثُوا عن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لاَحَرَجَ. (أخرجه أبو داود و أحمد) 

”بنی اسرائیل سے منقول روایات بیان کیا کریں، اس کے بیان میں کوئی حرج نہیں ہے۔“



ضعیف روایات کی ضرورت کیا ہے؟

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب مستند اور صحیح یا حسن درجے کی روایات موجود ہیں اور ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے تو آخر اس موضوع کے متعلق ضعیف روایات کو بیان کرنے اور ان سے استدلال کرنے کی ضرورت کیا ہے؟


اس کا جواب یہ ہے کہ صرف صحیح یا حسن روایات سے مہدویات کی پوری فہم حاصل نہیں ہوپاتی، دوسرے الفاظ میں اگر صرف صحیح یا حسن کی شرط لگائی جائے تو یہ امام مہدی کے ظہور کے موضوع کو کماحقہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کے ظہور سے پہلے کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان میں مختلف خطوں (بالخصوص شام، عراق، خراسان، جزیرۃ العرب) کے سیاسی، عسکری اور معاشرتی حالات اور مجموعی طور پر آپ کے ظہور سے پہلے کے زمانے کے حالات سے واقفیت ہونی چاہئے۔ اُن شخصیات کو پہچان کر ڈھونڈنا چاہئے جن کا آخر زمانے کی روایات میں تذکرہ کیا ہے، چاہے وہ شر کی نمائندہ شخصیات ہوں جیسے سفیانی اوردجال وغیرہ وغیرہ، اور چاہے وہ خیر کی شخصیات ہوں جیسے یمانی، الحارث بن حراث، منصور اور امام مہدی۔ امام کی ذاتی و شخصی حالات ، روحانی مقام، جسمانی خصوصیات اور آپ کا مقام و وطن وغیرہ کی تفصیلات بھی سامنے رہنی چاہئیں۔ ان سب کو سامنے رکھ کر ہی امام کی معرفت ممکن ہے۔ اور ان میں سے بہت سی روایات پر کلام موجود ہے۔ 


اگر ضعیف کہہ کر ان روایات کو مسترد کیا جائے اور انہیں ناقابلِ اعتبار سمجھ کر موجودہ حالات پر ان کی تطبیق نہ دی جائے تو اس کا بہت امکان ہے کہ سچے مہدی کو جھوٹا سمجھ کر مخالفت کی جائے اور کسی جھوٹے مدعی کے فتنے میں مبتلا ہو کر ایمان گنوا بیٹھے۔ اس لئے انصاف یہی ہے کہ مستند روایات کی روشنی میں ضعیف روایات کو ساتھ ملا کر دیکھا جائے۔ 



ضعیف احادیث اور سانحہ حرم مکی

ظہور امام مہدی کے موضوع سے متعلق ضعیف احادیث کو نظر انداز کر دینا اور صرف صحیح کی شرط لگانا کس طرح فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے لئے آج سے چار عشرے پیش تر حرم مکی میں پیش آنے والا سانحہ بطور مثال کافی ہے۔ یہ سانحہ مہدویت کی اسی ناقص تصور کی وجہ سے پیش آیا۔ جب جہیمان العتیبی اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسے شخص کی بیعت کی جسے وہ امام مہدی سمجھتے تھے جبکہ وہ مہدی موعود نہیں تھے (بلکہ ان میں صرف دو یا تین علامات مہدی کی موجود تھیں جو کسی بھی شخص میں ممکن ہیں، جیسے نام و نسب وغیرہ) اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ حرم میں اسلحہ لے کر گئے اور یہاں کی بے حرمتی کا ذریعہ بن گئے۔ (اس کی تفصیل بندہ کی کتاب ”چار شہر“ میں موجود ہے) جہیمان نے اس موضوع پر اپنا ایک رسالہ بھی تالیف کیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:

”فتن اور علامات قیامت کے موضوع پر بہت سے اہلِ علم تالیفات کی ہیں لیکن میں نے (اُن میں دو کوتاہیاں محسوس کی ہیں جن کا میں نے اپنی کتاب میں ازالہ کیا ہے) 

پہلا یہ کہ ان حضرات نے صرف صحیح احادیث پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے صحیح و ضعیف دونوں قسم کی روایات جمع کی ہیں، حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے دین میں کسی عقیدے و عمل کے لئے روایت کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ 

دوسرا یہ کہ ان حضرات نے ان روایات کی واقع پر دلالت اور خارجی تطبیق کا لحاظ نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے قاری کو ان روایات میں تعارض نظر آتا ہے۔ بلکہ بعض جگہ کچھ سمجھ نہیں پاتا۔ باوجود یہ کہ وہ اس معاملے میں معذور تھے کیونکہ انہیں ان حالات سے کوئی سابقہ نہیں پڑا تھا جو ہمیں پیش آئے ہیں۔ (الفتن و أخبار المهدي و نزول عيسی و أشراط الساعة)

1979 تک بہت سی ایسی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں جو اس کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ ظاہر ہوئیں اور ہورہی ہیں۔ اس وقت کالے رنگ کے جہادی جھنڈوں والی تنظیمیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ سفیانی صفت والے جابر حکام اس طرح سامنے نہیں آئے تھے جس طرح کہ اب سامنے آئے ہیں۔ شام میں کسی قسم کی کوئی عوامی بغاوت نہیں تھی، یمن میں جنگ نہیں تھی۔ سعودی عرب کے معاشی و سیاسی حالات اس طرح بگڑے نہیں تھے جیسے اب ہیں۔ مصر، لیبیا، تونس اور عراق میں بھی اندرونی انتشار نہیں تھا جبکہ آج یہ انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ ان سب کی وجہ یہی تھی کہ ضعیف احادیث کو بالکلیہ چھوڑ دیا گیا جو صحیح احادیث کے ساتھ مل کر ایک مکمل منظر بنا رہی تھیں۔ اس ناقص تصور کی وجہ سے وہ سانحہ رونما ہوا جو خود امام مہدی کے ظہور کی علامات میں سے ایک علامت تھا۔ 



صحیح و ضعیف کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنا

علاماتِ قیامت کے متعلق مذکورہ روایات کی صحت کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ ان ضعیف روایات کا صحیح روایات کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے۔ بلکہ یہ دونوں ایک دوسری کی مؤیّد ہیں۔ بالخصوص حضرت امام مہدی کے ظہور سے متعلق روایات چاہے وہ صحیح ہوں یا حسن یا ضعیف انہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب مشکوۃ نبوت سے ماخوذ ہیں۔ اور یہ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی کے دانے ہیں۔

ضعیف احادیث کی ایک پہچان یہ ہے جس طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ نے الموضوعات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ وہ قرآن یا سنتِ ثابتہ کے معارض اور مخالف ہوں، جبکہ آخر الزمان، دجال اور ظہور مہدی کی روایات چاہے وہ ضعیف ہوں ان کا قرآن یا سنت یا صحیح روایات کے ساتھ تعارض نہیں ہے۔ بلکہ اگر دونوں قسم کی روایات کو ملایا جائے تو ایک واضح اور مکمل منظر بنتا نظر آتا ہے۔ اور جوں جوں حالات آگے بڑھ رہے ہیں ان روایات کا صدق واضح تر ہوتا جاررہا ہے۔ 

حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمہ اللہ نے ترجمان السنہ کے باب الامام المہدی میں امام کی چند صفات بیان فرمائی ہیں اس کے بعد صحیح و ضعیف کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنے کا ایک اصول ذکر فرمایا:

یہ تمام صفات ان صحیح حدیثوں سے ثابت ہیں جن میں محدثین کو کوئی کلام نہیں۔ اب گفتگو ہے تو صرف اتنی بات میں ہے کہ یہ خلیفہ کیا امام مہدی ہیں کوئی اور دوسرا خلیفہ؟ دوسرے نمبر کی حدیثوں میں یہ تصریح موجود ہے کہ یہ خلیفہ امام مہدی ہوں گے۔ہمارے نزدیک صحیح مسلم کی حدیثوں میں جب اس خلیفہ کا تذکرہ آچکا ہے تو پھر دوسرے نمبر کی حدیثوں میں جب وہی تفصیلات اس کے نام کے ساتھ مذکور ہیں تو ان کو بھی صحیح مسلم ہی کی حدیثوں کے حکم میں سمجھنا چاہئے۔ 

اس لئے اب اگر یہ کہہ دیا جائے کہ امام مہدی کا ثبوت خود صحیح مسلم میں موجود ہے تو اس کی گنجائش ہے۔ مثلا جب صحیح مسلم میں موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب اتریں گے تو اس وقت مسلمانوں کا ایک امیر امامت کے لئے مصلے پر آچکا ہوگا تو اب جن حدیثوں میں اس خلیفہ کا نام امام مہدی بتایا گیا ہے یقینا وہ اسی مبہم خلیفہ کا بیان کہا جائے گا۔ 

یا مثلا صحیح مسلم میں ہے کہ آخر زمانے میں ایک خلیفہ ہوگا جو بے حساب مال تقسیم کرے گا، اب اگر دوسری حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مال کی یہ داد و دہش امام مہدی کے زمانے میں ہوگی تو صحیح مسلم کی اس حدیث کا مصداق امام مہدی کو قرار دینا بالکل بجا ہوگا۔ 

اسی طرح جنگ کے جو واقعات صحیح مسلم میں ابہام کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں اگر دوسری حدیثوں میں وہی واقعات امام مہدی کے زمانے میں ثابت ہوتے ہیں تو یہ کہنا بالکل قرین قیاس ہوگا کہ صحیح مسلم میں جنگ کے جو واقعات مذکور ہیں وہ امام مہدی ہی کے دور کے واقعات ہیں۔  غالبا ان ہی وجوہات کی بنا پر محدثین نے بعض مبہم حدیثوں کو امام مہدی ہی کے حق میں سمجھا ہے، اور اسی باب میں ان کو ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ امام ابوداود نے بارہ خلفا کی حدیث کو امام مہدی کے باب میں ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ بارہواں خلیفہ یہی امام  مہدی ہیں۔ (ترجمان السنہ، باب الامام المہدی از مولانا سید محمدبدر عالم مہاجر مدنی رحمہ اللہ)


Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟