کیا ہم مہلت کے زمانے میں جی رہے ہیں؟

 

کیا اس امت کی عمر ایک ہزار سال تھی جس میں پانچ سو سال کی توسیع کر دی گئی ہے؟

کیا حضرت امام مہدی اس امت کے آخر میں تشریف لائیں گے؟

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی کل مدت سات ہزار سال ہے اور نبی اکرم  کی بعثت اس کے آخری ہزارئے میں ہوئی ہے۔

 

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال قال النبي صلی الله عليه و سلم: مَن قَضیٰ حاجَةَ المسلم فِي الله كَتَبَ الله لَه عُمرَ الدنيا سبعةَ آلافِ سنة صيامَ نهاره و قِيَامَ ليله. ابن عساكر، مسند الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي ٥۷۰۱

 

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

 

جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی مسلمان کی حاجت پوری کی تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا کی عمر یعنی سات ہزار سال کے دن کے روزوں اور رات کے قیام کے برابر اجر لکھ دیں گے۔“

 

یعنی کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کا ثواب اتنا ہے گویا دنیا کی کل عمر کے برابر اُس نے روزے رکھے، اور قیام اللیل کیا۔ اور دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔ ایک اور روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

 

عن الضحاك بن زمل الجهني قال: رأيتُ رؤيا فقصصتُها علی رسول الله صلی الله عليه و سلم أما المِنبرُ الذي رأيتَ فيه سبعَ درجاتٍ و أنا في أعلاهَا درجة: فالدنيا سبعةُ آلاف، و أنا في آخرها الف. أخرجه البيهقي في الدلائل وأورده السهيلي في الروض الأنف

 

”حضرت ضحاک جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: آپ نے جو منبر دیکھا جس میں سات سیڑھیاں تھیں اور میں سب سے اونچی سیڑھی پر تھا تو (اس کی تعبیر یہ ہے کہ) یہ دنیا سات ہزار سال ہے اور میں اس کے آخری ہزار سال میں ہوں۔

 

یہ روایات اگر چہ ضعیف ہیں لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند سے یہ منقول ہے کہ دنیا کی عمر سات دن ہے، اور ہر دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ اور رسول اللہ  اس کے آخری دن میں مبعوث ہوئے ہیں۔

 

الدنيا سبعةُ أيَّامٍ كلُّ يوم ألفُ سنةٍ، و بُعِثَ رسولُ الله صلی الله عليه و سلم في آخرها. الروض الأنف، و صحح الطبري هذا الأصل بآثار

 

لیکن اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کو چودہ سو سال سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے، اور ابھی تک قیامت سے پہلے کے بڑے بڑے واقعات بھی ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا جواب ابو داود شریف کی ایک روایت سے ملتا ہے۔

اس کا جواب ہمیں ایک حدیث سے ملتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

إنِّي لأرجو ألَّا تعجزَ أمَّتي عند ربِّها أن يُؤخِّرَهم نصفَ يومٍ، قيل لسعدٍ: وكم نصفُ ذلك اليومِ ؟ قال: خمسُمائةِ سنةٍ.

”مجھے امیدہے کہ میری امت اپنے رب کے ہاں اس بات سے عاجز نہیں ہوگی کہ اسے نصف یوم کے بقدر مزید مہلت عطا کردے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نصف یوم کی مقدار کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: پانچ سو سال“

 

یعنی اس امت کی اصل عمر ایک ہزار سال تھی جس کے بعد قیامت واقع ہونا تھی، لیکن رسول اللہ  کی دعا کی برکت سے (آدھا دن) یعنی پانچ سو سال مزید مہلت مل گئی۔

 

ایک حدیث میں یہی بات ارشاد فرمائی گئی ہے۔

 

عن حذيفة رضي الله عنه قال خَطَبَنَا رسولُ الله ﷺ فذَكَرَنَا ما هو كائنٌ ثمَّ قَالَ: لَوْ لم يَبْقَ مِن الدنيا إلا يومٌ واحدٌ لطَوَّلَ الله عزَّوجلَّ ذٰلكَ اليومَ حتى يَبْعَثَ رَجُلاً مِن وَلَدِيْ اسمُه اسمي، يُكَنّىٰ أَبَا عبدِالله، يُبَايِعُ له النَّاسُ بَيْنَ الرُّكْنِ والمَقَامِ، يَرُدُّ اللهُ بِهِ الدِّيْنَ ويَفْتَحُ له فُتُوحًا، فلا يَبْقٰى علٰى ظَهْرِ الأَرض إلَّا مَن بقُولُ لا إِله إِلا الله، فقَامَ سَلمانُ فقَالَ: يَا رسولَ الله! مِنْ أَيِّ وَلَدِكَ هُو؟ قَالَ: مِنْ وَلَدِيْ هٰذَا وضَرَبَ بِيَدِه على الحُسَين.

عقد الدرر للسلمي الشافعي، العرف الوردي في أخبار المهدي للسيوطي

 

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ  نے خطبہ دیا، اُس میں آپ نے آئندہ پیش آنے والے واقعات کی خبر دی،

پھر فرمایا: اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میری اولاد میں سے ایک شخص کو (مہدی بنا کر) بھیج دے گا جس کا نام میرے نام جیسا اور کنیت ابو عبد اللہ ہوگی۔ لوگ مقامِ ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان اس کی بیعت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے ذریعے دین کا غلبہ لوٹا دے گا، اور اسے فتوحات سے نوازے گا۔ زمین پر کوئی شخص باقی نہیں رہے گا مگر وہ لَا إِلٰه إلاَّ الله کہنے والا ہوگا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ آپ کی کون سی اولاد میں سے ہوں گے؟ آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر ہاتھ مار کر فرمایا: ان کی اولاد سے ہوں گے۔

یعنی اس امت کی اصل عمر ایک ہزار سال طے تھی جس کے بعد قیامت واقع ہونا تھی،

لیکن رسول اللہ  کی دعا کی برکت سے (آدھا دن) یعنی پانچ سو سال مزید مہلت مل گئی۔ غالبا اس حدیث میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر اس دنیا کی زندگی کا صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ اس دن میں اتنا اضافہ کر دیں گے کہ میری عترت میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمائیں گے۔

آپ کے بعد ایک ہزار سال گزر چکے ہیں، گویا اس وقت امت مہلت کی مدت میں چل رہی ہے۔ مہلت کی یہ مدت بھی اختتام کے قریب ہے۔ حضرت امام مہدی کا ظہور اسی مدت میں ہوگا، آپ اسی صدی کے مجدد ہوں گے اور آپ کے ظہور کے بعد دنیا عظیم الشان واقعات کا مشاہدہ کرے گی۔

حضرت امام مہدی کی کنیت ابو عبد اللہ ہوگی، اور بیت اللہ کے قریب حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان آپ کی بیعت ہوگی۔ جس کے بعد آپ خلیفہ بن جائیں گے۔ دین اُس صورت میں دوبارہ زندہ ہوجائے گا جس صورت میں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ظاہری و باطنی فتوحات سے نوازیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟