یثرب کی ویرانی

کیا القدس کا آباد ہونا مدینہ طیبہ کے ویران  ہونے کی نشانی ہے؟

کیا القدس کی آبادی مکمل ہوچکی ہے؟ 

مدینہ طیبہ کیسے ویران ہوگا؟ اور ایسا کب ہوگا؟

                بیت المقدس کی آبادی تو ظاہری اور معنوی دونوں لحاظ سے تھی تو کیا یثرب (مدینہ) کی ویرانی اور خرابی صرف مادی ہے یا مادی اور معنوی دونوں؟

                یثرب کی ویرانی مادی بھی ہے اور معنوی بھی ( یعنی ظاہری اور باطنی) دونوں لحاظ سے ہوگی۔ یثرب کی مادی ویرانی واقع ہوچکی ہے، اور شاید مکمل بھی ہوچکی ہے، معنوی خرابی کے مظاہر مختلف ہیں، اور وہ بھی واقع ہوچکی ہے۔اس ویرانی کو سمجھنے کے لیے ہمیں علاماتِ قیامت والی احادیث کا ایک عمومی جائزہ لینا چاہئے۔

                ایک فریق تو وہ ہے جو دجال، امام مہدی، ملحمۃ الکبری کے متعلق وارد تمام روایات و احادیث کا یکسر انکار کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ روایات میں کی گئی پیشین گوئیوں میں دجال ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ یہی عالمی نظام ہی دجال ہے، اس جیسی تاویلات وہ دوسری علامات کے متعلق بھی کرتے ہیں۔ دوسرا فریق جو ”لفظی ترجمے“ اور نصوص و عبارت کے پیچ و خم ہی میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں، انہوں نے جب دیکھا کہ مدینہ منورہ میں آبادی بڑھ رہی ہے، تعمیرات و ترقی کے کام تیزی سے ہورہے ہیں، بڑی بڑی بلڈنگیں بن رہی ہیں، تو انہوں نے یہ کہا کہ ”یثرب کی خرابی“ ابھی تک واقع ہی نہیں ہوچکی ہے، اور یہ علامت مستقبل میں واقع ہوگی۔ ایک فریق وہ ہے جو اس ”خرابی“ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ صرف معنوی ہے۔ ان میں سے ہر فریق اپنی اپنی رائے کے مطابق اس خرابی کی تفصیل کرتے ہیں۔

                جس طرح بیت المقدس کی ویرانی مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے ہے اسی طرح یثرب (مدینہ) کی ویرانی بھی دونوں اعتبار سے ہے، اور یہ واقع ہو چکی ہے۔ اس کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ حدیث کے مطابق ہم ” سنین خداعات“ میں یعنی دھوکے والے سالوں میں جی رہے ہیں، جس میں خیر و شرکے معیار اور پیمانے تبدیل بلکہ الٹے ہوجائیں گے، ”خرد کا نام جنون، جنون کا خرد“ کے مصداق شخصیات وصفات کے ماپنے کے قرینے ہی تبدیل ہوجائیں گے۔ حدیث میں بہ طور مثال یہ بتایا گیا ہے کہ امانت دار کو خائن اور خیانت پیشہ کو امین سمجھا اور دکھایا جائے گا، یعنی ہر چیز اپنی حقیقت سے مختلف نظر آئے گی (یا دکھائی جائے گی) جو شخص آج بھی مدینہ منورہ کو دیکھے گا اسے ظاہری آبادی کی عظیم وعجیب ترقی نظر آئے گی۔ بلامبالغہ مدینہ میں آج کروڑوں اور اربوں ریال کے منصوبے چل رہے ہیں، کھلی اور وسیع شاہراہیں، لمبی سرنگیں، آراستہ و پیراستہ مساجد، کثیر المنزلہ جدید سہولیات سے آراستہ فائیو سٹار ہوٹل وغیرہ۔ لیکن اگر ہم رسول اللہ ﷺ کے شہر کو بصیرت کی نگاہوں سے دیکھیں تو شاید ہمیں کچھ مختلف صورت حال نظر آئے۔

                البتہ اس سے پہلے مدینہ سے متعلق چند احادیث کا ایک عمومی جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ کوئی تعارض محسوس نہ ہو۔ ہر حدیث اپنا ایک پس منظر رکھتا ہے، اور یہ ایک منظر کے مختلف ٹکڑے ہیں جنہیں باہم جوڑنا پڑتا ہے۔ 

ایمان مدینہ میں سمٹ آئے گا

عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال: سمعتُ رسولَ الله ﷺ و هو يقول: إنَّ الإيمانَ بدأَ غريبا و سيعودُ غريبا كما بَدَأَ، فطوبیٰ يومئذ للغرباء، و هم الذين يصلحون إذا فَسَدَ الناسُ، والذي نفسُ أبي القاسم بيده ليَأرِزُنَّ الإيمانُ بين هذين المسجدَينِ كَما تَأرِزُ الحيَّةُ إلی جُحرِها.([1])

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ابتدا اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور عنقریب یہ دوبارہ اسی اجنبیت کی طرف لوٹے گا، پس ایمان کی وجہ سے ایسے اجنبی سمجھے جانے والے لوگوں کے لیے خوشخبری ہو۔  یہ وہی لوگ ہیں جو لوگوں میں فساد پھیلنے کے بعد اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابوالقاسم(ﷺ) کی  جان ہے کہ ایمان ان دونوں مسجدوں (مسجد حرام اور مسجد نبوی) کے درمیان ایسے سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ کر آتا ہے۔

ایمان اور ایمان والے شروع میں اجنبیت کی حالت میں تھے، اسے قبول کرنے والے معاشرے میں اوپرے سمجھے جاتے تھے۔ لوگوں سے الگ تھلگ ان کی شناخت ہوتی تھی، پھر اللہ نے کرم کر دیا اور اسلام پھیل گیا، بلکہ دنیا پر غالب آگیا، اور اس کی غربت کا دور ختم ہوگیا، لیکن آخر زمانے میں ایک بار پھر یہ حجاز تک محدود ہوجائے گا، جیسے سانپ اپنے بل تک محدود ہوجاتا ہے۔([2])

 بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایمان مدینہ کی طرف سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔

                یعنی وہ ایمان جو مدینہ منورہ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکا ہوگا اور جس میں لوگ جوق در جوق داخل ہورہے تھے، مشرق و مغرب میں کروڑوں مسلمان اس کے نام لیوا تھے،  یہ ایمان آخری زمانےمیں اجنبی بن جائے گا اور یہ مدینہ کی طرف ایسا سمٹ آئے گا جیسا کہ سانپ اپنے بل سے نکل کر پھیل جاتا ہے پھر لوٹ کر سمٹ کر اپنے بل میں واپس گھس جاتا ہے۔ یعنی مدینہ منورہ کو معنوی یا روحانی کسی قسم کی خرابی متاثر نہیں کر سکتی، یہاں تک کہ قربِ قیامت میں بھی۔ اہلِ ایمان کے آخری گروہ کو جو مدینہ میں پناہ لیے ہوئے ہوں گے دجال بھی کچھ نہیں کہہ سکے گا اور وہ بھی مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ تب اس کے دروازوں پر فرشتے پہرہ دے رہے ہوں گے۔

          يأتي على الناس زمانٌ يدعو الرجلُ ابنَ عمِّه وقريبَه هَلُمَّ إلى الرخاء، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، والذي نفسي بيده لا يخرج منهم أحدٌ رغبةً عنها إلا أخلف الله فيها خيراً منه.([3])

                ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں ایک شخص اپنے چچازاد اور اپنے قریبی عزیز کو کہے گا کہ آؤ مال کی فراخی کی طرف چلتے ہیں، او ر مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، کوئی بھی شخص جو مدینہ سے بے رغبتی کی وجہ سے نکلا تو اللہ ضرور اس کے بعد کسی اور کو جو اس سے بہتر ہوگا لابسائے گا“

بلکہ مدینہ میں رہائش رکھنے اور یہاں کی سختیوں پر صبر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

                حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ لوگو ں کے لیے بہتر ہوگا اگر لوگ جانتے ہوں، کوئی بھی شخص جو اس میں بے رغبتی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے گا تو اللہ اس سے بہتر شخص اس کے بدلے میں لے کر آئے گا۔ اور جو شخص بھی یہاں کی سختی اور مشقت پر صبر کر کے یہاں ثابت قدم رہے گا میں اس کے لیے قیامت کے دن سفارشی یا گواہ ہوں گا۔ ([4])

                گویا حضورﷺ نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مدینہ کی طرف ہجرت کی جائے، اس میں رہائش رکھی جائے، اور  مختلف سختیوں اور زمانے کے حالات پر صبر کیا جائے۔ عموما اہلِ مدینہ ان احادیث کو جانتے ہیں، اور مدینہ میں رہنے اور مرنے کی فضیلت سے واقف ہیں، اسی وجہ سے مدینہ سے وہ کسی بھی وجہ سے نہیں نکلتےالّا یہ کہ کوئی عظیم الشان حادثہ پیش آجائےجو انہیں نکلنے پر مجبور کرے۔ایسا عظیم حادثہ کیا ہوسکتاہے؟  

دجال سے مدینہ کی حفاظت

           عَنْ مِحْجَنِ بْنِ الأَدْرَعِ رَضيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: يَوْمُ الْخَلاصِ، وَمَا يَوْمُ الْخَلاصِ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا يَوْمُ الْخَلاصِ؟ فَقَالَ: يَجِيءُ الدَّجَّالُ، فَيَصْعَدُ أُحُدًا، فَيَطَّلِعُ، فَيَنْظُرُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَيَقُولُ لأَصْحَابِهِ: أَلا تَرَوْنَ إِلَى هَذَا الْقَصْرِ الأَبْيَضِ، هَذَا مَسْجِدُ أَحْمَدَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَدِينَةَ، فَيَجِدُ بِكُلِّ نَقْبٍ مَنْ نِقَابِهَا مَلَكًا مُصْلِتًا، فَيَأْتِي سُبْحَةَ الْجُرُفِ، فَيَضْرِبُ روَاقَهُ، ثُمَّ تَرْتَجِفُ الْمَدِينَةُ ثَلاثَ رَجَفَاتٍ، فَلا يَبْقَى مُنَافِقٌ وَلا مُنَافِقَةٌ، وَلا فَاسِقٌ وَلا فَاسِقَةٌ، إِلا خَرَجَ إِلَيْهِ، فَتَخْلُصُ الْمَدِينَةُ، وَذَلِكَ يَوْمُ الْخَلاصِ .([5])

                حضرت محجن بن الادرع رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے خطبے  کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ : خلاصی (نجات) کا دن! خلاصی کا دن کیا ہے؟ خلاصی کا دن! خلاصی کا دن کیا ہے؟ خلاصی کا دن! خلاصی کا دن کیا ہے؟ تو کہا گیا کہ خلاصی کا دن کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دجال آئے گا اور احد پہاڑ پر چڑھ جائے گا، اور مدینہ کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہے گا: کیا تمہیں یہ سفید محل نظر آرہا ہے؟ یہ احمد (ﷺ) کی مسجد ہے، پھر مدینہ آنا چاہے گا تو اس کے ہر راستے پر تلوار سونتے فرشتے کو پائے گا، چنانچہ سبخۃ الجرف آکر وہاں اپنے لیے ایک سائبان بنائے گا، پھر مدینہ میں تین بار زلزلہ آئے گا، تو کوئی منافق مرد اور عورت اور کوئی فاسق مرد اور عورت ایسے باقی نہیں بچیں گے مگر اس کی طرف نکل آئیں گے۔پس یہی خلاصی کا دن ہے۔

                یہ حدیث بالکل واضح ہے۔ جس میں رسول اللہ ﷺدجال کے خروج کے وقت مدینہ کی حالت بیان فرمارہے ہیں کہ جب دجال مدینہ کو تاراج کرنا چاہتا ہوگا اور وہ سبخة الجرف آئے گا، سبخة ریتیلی زمین کو کہتے ہیں،  سبخة الجرف مدینہ سے شمالی جانب تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔   دجال کے زمانے میں یہ مادی، روحانی اور ایمانی لحاظ سے آباد ہوگا،  باوجود اس میں بعض منافقین کے موجود ہونے کے، اور مسجد نبوی سفید محل کی طرح ہوگا۔ حالانکہ نبی ﷺ کے زمانے میں یہ کچی اینٹوں سے بنی خاکی رنگ کی عمارت تھی جس کی چھت کھجور کی شاخوں اور لکڑیوں سے بنائی گئی تھی، اور اس کے ستون کھجور کے درختوں کے تنے تھے۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں سفید پتھر کا استعمال دور حاضر میں ہی ہوا،  جب 90 کی دہائی میں  شاہ فہد کے دور میں اس میں توسیع ہوئی، جو شخص آج مسجد نبوی کو احد پہاڑ سے دیکھے گا اسےیہ ایک سفید محل کی طرح نظر آئے گی۔ اس سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ دجال کا خروج قریب ہی ہے۔

سـبخۃ الجرف

ایک اور حدیث جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

آخر قريةٍ من قُری الإسلامِ خراباً المدينة ([6])

”اسلام کے شہروں میں سب سے آخر میں ویران ہونے والا شہر مدینہ ہے۔“

                ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینہ آباد رہے گا، اور مادی یا روحانی کسی لحاظ سے اس پر کوئی ویرانی نہیں آئے گی نہ بیت المقدس کی آبادی  کے بعد، نہ جنگِ عظیم کے بعد اور بلکہ دجال کے خروج تک ۔ یہ مدینہ کے فضائل میں سے ہے کہ یہ آخر تک آباد ہے گا، کیونکہ یہ ایمان کی پناہ گاہ ہے، اور ایک قول کے مطابق یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دفن ہوں گے۔

                یہاں تک پہنچ کر پھر وہی اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جو حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے اس سے تو صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کی ویرانی بیت المقدس کی آبادی کے  بعد ہوگی، جس کے بعد جنگِ عظیم (ملحمہ) برپا ہوگی، جو امام مہدی کے ظہور کے بعد خلافت میں پیش آئے گی۔یعنی یہ حدیث سابقہ احادیث کے ساتھ متعارض ہے، جن میں دجال کے وقت اور اس کے بعد مدینہ کی آبادی کا ذکر ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہمارے مشاہدے کے بھی خلاف ہے جو ہمیں مدینہ میں ظاہری آبادی اور ترقی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ حالانکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی صحیح ہے۔

                اگر آپ غور کریں تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے علاوہ تمام احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ کا ذکر کیا تو لفظِ ”مدینہ“ کے ساتھ ذکر کیا، جو اس کا وہ نام ہے جو اسے رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا، لیکن حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی خرابی کا ذکر کیا تو فرمایا: ”یثرب کی خرابی“ مدینہ کی خرابی یا ویرانی نہیں فرمایا۔

                مزید یہ کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ انصاری صحابی ہیں، یعنی مدینہ کے ہیں، وہیں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے، اپنی زندگی کااکثر حصہ مدینہ میں ہی گزارا سوائے وفات سے پہلے چند مہینوں کے جب انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کا امیر مقرر کیا، اور وہیں ان کا 36 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حدیث حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے مدینہ میں سنی ہے مکہ میں نہیں، اور جس وقت آپ ﷺ یہ حدیث ارشاد فرمارہے تھے اس وقت بھی یہ شہر، یثرب کی بجائے اپنے نئے نام (یعنی مدینہ)کے ساتھ موسوم ہوچکا تھا ۔ اگر یہ حدیث مکہ میں ارشاد فرماتے تب تو یہ بات فہم و منطق کے مطابق تھی کہ آپ ﷺ مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کا نام یثرب ذکر فرماتے، لیکن یہ مدینہ میں رہ کر ارشاد فرمائی ہے جبکہ اس کا نام تبدیل ہوچکا تھا اور آپ ﷺ نے پھر بھی اسے یثرب فرمایا۔

                حضورﷺ جنہیں اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم عطا فرمائے تھے یعنی ایسے مختصر جامع کلمات جن میں معانی کا ایک جہاں پنہاں ہوتا ہے، آپ ﷺ کا علاماتِ قیامت کی حدیث میں اس شہر کی ویرانی کے تذکرے میں لفظِ ”یثرب“ کا نام لینا اس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ جو ویرانی اس شہر میں ملحمہ یعنی جنگِ عظیم سے پہلے پیدا ہوگی وہ ہر اس چیز اور حالت پر طاری ہوگی جو اس شہر میں قدیم اور تاریخی ہوگی۔ یعنی وہ تمام قدیم اور تاریخی علامات، مقامات اور جگہیں اور حالات جو یہاں اس کے قدیم نام ”یثرب“ کے وقت تھیں، ویران ہوجائیں گے۔

                اور عملا ایسا ہی ہوا کہ اس شہر میں وہ تمام آثار جو رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اجمعین سے متعلق تھیں اور جن کی مسلمانوں نے صدیوں تک حفاظت کی تھی انہیں مٹا دیا گیا اور مسمار کر دیا گیا، ان میں سے بہت سارے آثار بیسویں صدی کے آخری چوتھائی تک بھی باقی تھیں، لیکن شرک کے نام پر، مسجد نبوی کی توسیع اور ہوٹلوں کی تعمیرات کے بہانے انہیں مسمار کر دیا گیا۔ (قطع نظر اس بات کے کہ قبور کو سجدہ گاہ بنانااور ان پر تعمیر بنانے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے)

                حالانکہ یثرب کی یہ ویرانی اسی زمانےمیں ہوئی جب بیت المقدس کی آبادی ہورہی تھی اور جب یہود مسجد اقصی کے نیچے سرنگیں کھود رہے تھے تاکہ انہیں ہیکل یا یہودی تاریخ کی کوئی قدیم کمزور سی نشانی نظر آئے، جسے بنیاد بنا کر وہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کر کے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کریں۔  عین اسی دور میں مدینہ کے تاریخی آثار کو ختم کر دیا گیا، چنانچہ شہرِمدینہ میں آج ایسی کوئی تاریخی عمارت یا نشانی باقی نہیں بچی ہے جو اس زمانے کی ہو جب یہ یثرب کہلاتا تھا بلکہ اس کے بعدکے زمانے کا بھی کچھ باقی نہیں ہے۔  غزوہ خندق کی جگہ، جہاں سات مسجدیں بنائی گئیں تھیں سب کو مسمار کر دیا گیا،یہاں تک کہ مسجدنبوی بھی بالکلیہ تبدیل کر دی گئی ہے اور اس میں تاریخی کچھ باقی نہیں  رہا ہے، اور یہ ایک سفید محل بن چکا ہے، جسے دیکھ کر دجال کہے گا کہ یہ ”احمد“ ﷺ کا محل ہے۔ یعنی یہ ویرانی واقع ہو چکی ہے اور اس کے ملبے پر مدینہ کی موجودہ تعمیر و ترقی کی بنیادیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔

معنوی خرابی

                مادی ویرانی کی طرح یہ ویرانی معنوی بھی ہےاور اس کے بھی متعدد مظاہر ہیں، سب سے پہلے تو اِس کے اُس دینی، تہذیبی اور سیاسی کردار کا خاتمہ ہوا (جو اس کو پہلے حاصل تھا) موجودہ زمانے میں مدینہ کا اس حوالے سے کوئی کردار نہیں ہے،  گویا یہ وہ شہر ہی نہیں رہا جو پہلی خلافت راشدہ کا دارالخلافہ تھا، اور یہاں روم و فارس کی قسمت کے فیصلے ہوتے تھے۔ تاریخ میں مدینہ اس ”ویرانی“ کی حالت کو کبھی نہیں پہنچا تھا۔ کسی عالمی چینل یا اخبار میں مدینہ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، اس کا موجودہ عالمی و ملکی سیاست میں کوئی کردار نہیں رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب دارالخلافہ مدینہ سے دمشق پھر بغداد اور دوسرے شہروں کی طرف منتقل ہوا تھا تب بھی شہرِ مدینہ ایک فعال سیاسی کردار ادا کر رہا تھا۔

اس کے برعکس ”القدس“ کا سیاسی و تہذیبی کردار اب بھی باقی ہے۔ بلکہ اسرائیل کا اسے اپنا دارالحکومت قرار دینے کے بعد مزید روبہ ترقی ہے، اور نیل سے فرات تک گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا سرنامہ ہے، یہاں پر یہودیوں کے لئے جدید ترین سہولیات سے آراستہ بستیاں بسائی گئی ہیں۔ دوسری طرف مدینہ منورہ آج فقط دینی سیاحت کا ایک مرکز بن چکا ہے، گویا معاذ اللہ اسے ایک دینی عجائب گھر کی حیثیت دے دی گئی ہے، جس میں لوگ فقط زیارت اور تبرک کے لیے آتے ہیں (اور اس مقدس شہر کے پاک و متبرک ہونے میں کیا شک ہے) لیکن اس کا وہ عظیم عالمی و سیاسی کردار نہیں رہا جو ہونا چاہئے تھا اور جو ایک طویل عرصے تک یہ ادا کرتا رہا ہے۔ جب مدینہ منورہ کو اس کا وہ مقام نہیں ملا جس پر کئی صدیوں تک یہ فائز تھا تو یہی اس کی ”ویرانی“ ہے۔

                آج کا مدینہ منورہ جبکہ مسلمانوں کی تعداد پوری دنیا میں ڈیڑھ سے پونے دو ارب کے درمیان ہے، یونیورسٹیوں، کالجوں اور جامعات سے بھرپور ایک شہر ہونا چاہئے تھا ، اس کی شاہراہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں طلبہ کی رش سے بھری ہوئی ہونی چاہئے تھیں،  جو عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے کھینچ کھینچ کر یہاں طلبِ علم کے لئے آتے۔ یہاں عظیم الشان لائبریریاں ہوتیں،  عالمی معیار کے ٹی وی چینل ہوتے جو صحیح اسلامی عقیدےو نظرئے اور  مومنانہ اخلاق و کردار کی ترویج کا کام کرتے، یہ شہر عالم کفر کے ساتھ ہمہ قسم کی مقاومت کا مورچہ بنتا،  اسے پوری دنیا میں  اسلامی تہذیب و تمدن کی دعوت و اشاعت کا مرکز ہونا تھا، اور ایک بہت مثالی صورت حال فرض کرلیں تو عالم اسلام کا جہادی مرکز بھی یہی ہوتا، لیکن سیکولرازم سے متاثر عالم اسلام اور فتنہ دُہیما کی شکار مسلم امت کی موجودہ صورت حال میں یہ بہت بعید ہے۔

                جبکہ دوسری جانب القدس یونیورسٹیوں اور جامعات سے بھر پور ہے، جہاں اسرائیل کی قائم کی ہوئی یونیورسٹی دنیا کی اعلی سطح کی یونیورسٹیوں میں داخل ہے۔  لیکن مدینہ منورہ میں ایک ہی جامعہ اسلامیہ ہے جو شومئی قسمت سے سیاست کا شکار ہے، جس میں غیر ملکی طلبا کی تعداد چند سو (وہ بھی اچھے حالات میں) سے زائد نہیں ہوتی۔جبکہ اس کے مقابلے میں ہوٹل اور بلند و بالا بلڈنگیں ہزاروں کی تعداد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مکڈونلڈ اور کینٹکی کے ہزاروں برانچز حجاز اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں جن کے مالک یہودی فری میسن ہیں، یوں بیت المقدس کی آبادی کا سرمایہ ”یثرب کی ویرانی“ سے ”  حاصل کیا جاتا ہے۔

ویرانی کی تکمیل

                البتہ یثرب کی اس ”ویرانی“  کا نقطہ تکمیل کب ہوتا ہے کہ جس کے بعد الملحمہ کا خروج ہوگا؟ نعیم بن حمادؒ کی ایک روایت سے اس کی کچھ وضاحت ہوتی ہے:

            يَقْتَتِلُ عِنْدَ كَنْزِكُمْ ثَلَاثَةٌ، كُلُّهُمْ ابْنُ خَلِيفَةٍ، ثُمَّ لَا يَصِيرُ إِلَى وَاحِدٍ مِنْهُمْ، ثُمَّ تَطْلُعُ الرَّايَاتُ السُّودُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ فَيَقْتُلُونَكُمْ قَتْلًا لَمْ يُقْتَلْهُ قَوْمٌ - ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهُ - فَقَالَ: فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ.([7])

                رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے خزانے کے پاس تین آدمی لڑیں گے، تینوں خلیفہ کے بیٹے ہوں گے، حکومت کسی کو نہیں ملے گی، اس کے بعد مشرق کی طرف سے سیاہ جھنڈے نکل آئیں گے اور وہ تمہارا ایسا قتلِ عام کریں گے کہ ایسا کسی نے نہیں کیا ہوگا، اس کے بعد نبی ﷺ نے کچھ اور بھی فرمایا جس کو میں محفوظ نہیں کر سکا، پھر فرمایا: جب تم اسے دیکھو تو اس کی بیعت کرو اگر چہ برف پر گھسٹنا پڑے کیونکہ اس میں اللہ کے خلیفہ امام مہدی ہوں گے۔

                اس روایت میں دو باتوں کی پیشین گوئی کی گئی ہے، پہلی یہ کہ ایک حاکم کی موت پر اس کے تین بیٹوں یا خاندان کے تین افراد میں اقتدار کے لئے لڑائی ہوگی ، خلیفہ کے لفظ سے مراد حاکم ہے یا بہ ظاہر یہ راوی کی تعبیر ہے، کیونکہ یہ بات روایات سے معلوم ہے کہ حضرت امام مہدی سے پہلے دنیا ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی، اور مسلمان شدید اختلاف و انتشار کا شکار ہوں گے، خوف کی فضا ہوگی، ایسی صورت حال میں کسی خلافت کا قیام ناقابلِ فہم ہے، کیونکہ یہ کیسی خلافت ہوگی جس کی موجودگی میں بھی زمین میں ظلم و ستم جاری ہوگا؟ لوگوں میں اختلاف ہوگا اور خوفزدہ ہوں گے۔ نیز یہ بھی احادیث میں مروی ہے کہ حضرت امام مہدی کے ذریعے قائم ہونے والی خلافت منہج نبوت کے مطابق ہوگی، جو الملك الجبري کے بعد ہوگی۔

                یہ حاکم کس جگہ کا ہوگا؟ ممکنہ طور پر یہ حاکم حجاز یا موجودہ سعودی عرب کا حاکم ہوسکتا ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حضرت امام مہدی کا ظہور اور آپ کی بیعت مکہ میں ہوگی، بیعت سے پہلے ہی آپ کی موجودگی مکہ، مدینہ اور طائف میں ہوگی، اس لئے سب سے پہلے آپ کا واسطہ سعودی حکام سے ہوگا۔انہیں اقتدار چھن جانے کا خطرہ ہوگا، اور یہ حاکم حضرت امام مہدی کے جانی دشمن ہوں گے۔ اس لئے یہ بات قرین قیاس ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کی بہ جائے سعودیہ ہی وہ ملک ہوسکتا ہے جہاں حالات کی خرابی حضرت امام مہدی کے ظہور کا راستہ ہموار کردے۔ ایک حاکم کی موت پر خاندان میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، لڑائی چلتی رہے گی جس کا نتیجہ کسی بھی دعویدار کے حق میں نہیں نکلے گا، قیادت کا خلا پیدا ہوجائے گا۔ اور یوں امت کو اللہ تعالیٰ حضرت امام مہدی کی خلافت سے نواز دے۔

                دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اس روایت میں خطاب صحابہ کرام سے کیا اور فرمایا: عند داركم هذا ”اس گھر کے پاس لڑائی ہوگی“ یعنی اقتدار کی یہ جنگ بیت اللہ کے آس پاس ہوگی۔ اور یہاں کے حکام ہی اس میں ملوث ہوں گے۔

                آل سعود جن کو اہلِ سنہ کی مختلف روایات میں ”بنو العباس“ کہا گیا ہے جو بہ ظاہر راوئ حدیث کی جانب سے اِضافہ ہے، جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے بنو امیہ کا دورِ حکومت الملك العاض گمان کیا، بنو العباس کے زمانۂ حکومت کو الملک الجبري سمجھا جس کے بعد منہجِ نبوت پر قیامِ خلافت کی نوید سنائی گئی ہے۔ حالانکہ بنو العباس کو گزرے سینکڑوں سال ہوچکے ہیں۔ ان کے بعد عثمانی خلافت کے خاتمے کی بھی صدی پوری ہونے والی ہے، اور امت مسلمہ ظلم و جبر کے کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔ آگے انتظار ایسے قائد کا ہے جو امت کی ڈوبتی کشتی کو ظلم کے بھنور سے نکال دے۔

                دوسری بات جس کی اس حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے یہ ہے کہ ”تمہارے اوپر کالے جھنڈوں والے حملہ آور ہوں گے اور تمہارا ایسا قتلِ عام کریں گے کہ ایسا کسی نے نہیں کیا ہوگا۔

کالے جھنڈے اس وقت القاعدہ، الدولۃ الاسلامیہ (داعش) دوونوں کے ہیں۔ پروپیگنڈے کے طوفان میں اگرچہ بہت ساری حقیقتیں نظروں سےاوجھل ہو جاتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں تنظیموں سے یہ امکان بہت بعید ہے کہ یہ عرب میں داخل ہوکر عام مسلمانوں کا ایسا قتلِ عام کریں کہ اس جیسا کسی نے نہیں کیا ہوگا۔ جبکہ خود کفار کا ظلم و ستم ہر حد پار کر چکا ہے، اس لیے کالے جھنڈے والوں کی طرف سے ایسا قتلِ عام ایک تاریخی اور قدیم کینے کی خبر دیتا ہے، جو بنو عباس کے دور سے چلا آرہا ہے ،  جس کے وارث اس وقت شیعہ اثنا عشریہ ہیں، جو اپنے سینوں میں اہلِ سنت کے خلاف ایک تاریخی بغض رکھتے ہیں، اور جن کے ساتھ معرکہ ضرور برپا ہونا ہے، جس کی ابتدا عراق، یمن اور شام میں مجاہدین کے لشکروں کی موجودگی سے ہوچکی ہے۔واللہ اعلم

سعودی خاندان کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ممکن ہے کہ شاہ سلمان کی موت پر شاہی خاندان کے تین افراد کے درمیان لڑائی ہوجائے اور اس دوران ایران و امریکہ کی جنگ چِھڑ جائے، جس کے آثار نظر آرہے ہیں، تب شیعہ اپنا تاریخی بغض نکالنے کے لئے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے امریکی اڈوں  کے بہانے سعودی عرب پر حملہ کریں اور حجاز میں ایسا قتلِ عام کریں جو کسی نے نہیں کیا ہوگا، تب امام مہدی کا ظہور ہوگا، اور تب یثرب کی ویرانی انتہا کو پہنچ جائے گی جس کے بعد الملحمۃ الکبری ہوگا۔ واللہ اعلم!

ویرانی میں حصہ ڈالنے والے

مدینہ کی ویرانی میں یہاں کے ظالم حکام کا بھی دخل ہے، جو یہاں اسلام پسندوں پر خدا کی یہ کشادہ زمین تنگ کردینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی مثال دورِ نبوت کے ان منافقین جیسی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر سازش کا حصہ ہوتے تھے۔  مدینہ کے لئے ”یثرب“ کا لفظ استعمال کرنا انہی کی سنت ہے،([8]) اور شاید اس روایت میں یثرب کے لفظ سے اسی جانب اشارہ ہے کہ ”طیبہ“ کی اس ویرانی میں یہاں کے منافقانہ صفات رکھنے والے حکام بھی حصہ دار ہوں گے۔

سورت احزاب میں مدینہ کو یثرب کہا گیا ہے لیکن وہ بطور حکایت ہے۔ جب منافقین نے غزوہ احزاب سے پیچھے رہنے کے لئے جھوٹا عذر پیش کیا اور جہاد سے بھاگنے کے لئے کہنے لگے کہ:

﴿وَ اِذْ قَالَتْ طَّائِفَةٌ مِّنْہُمْ یٰاَھْلَ یَثْرِبَ  لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ ؕ وَ مَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ ۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا﴾([9])

”اور جب اُنہی میں سے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ: یثرب کے لوگو!تمہارے لئے یہاں ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، بس واپس لوٹ جاؤ۔ اور اُنہی میں سے کچھ لوگ نبی سے یہ کہہ کر (گھر جانے کی ) اِجازت مانگ رہے تھے کہ: ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں تھے، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ (کسی طرح)  بھاگ کھڑے ہوں۔ “

منافقین کو رسول اللہ ﷺ کا دیا ہوا نام پسند نہیں تھا، اس لئے انہوں نے مدینہ کی بجائے یثرب کہہ کر پکارا، جہاد سے بھاگنے کے لئے جھوٹے اعذار تلاش کئے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اِن کے بارےمیں یہ فرمایا کہ یہ ہر فتنے کی آگ کا ایندھن بننے کے لئے تیار ہیں، ارشاد ہے:

﴿وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَقْطَارِھَا ثُمَّ سُىِٕلُوا الْفِتْنَۃَ لَاٰتَوْھَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِھَآ اِلَّا یَسِیْرًا۝﴾([10])

”اور اگر دشمن مدینے میں چاروں طرف سے آگھسے، پھر ان سے فساد میں شامل ہونے کو کہا جائے تو یہ اس میں ضرور شامل ہوجائیں گے، اور (اس وقت) گھروں میں تھوڑے ہی ٹھہریں گے“

چند آیات کے بعد ان کی خباثتوں کا مزید بیان کیا گیا ہے، فرمایا:

﴿لَىِٕنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَ الْمُرْجِفُوْنَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یَجَاوِرُوْنَكَ فِیْھَآ  اِلَّا قَلِیْلًا ۝﴾([11])

”اگر وہ لوگ باز نہ آئے جو منافق ہیں، جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو شہر میں شر انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں، تو ہم ضرور ایسا کریں گے کہ تم ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگے، پھر وہ اس شہر میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکیں گے، البتہ تھوڑے دن“

                منافقین کو مدینہ جیسے طیب اور پاک شہر کو رسول اللہ ﷺ کا دیا ہوا نام منظور نہیں تھا، جہاد سے پیچھے رہنے کے بہانے بناتے تھے، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہر دشمن کا ساتھ دینے پر بھی آمادہ تھے، جب کوئی لشکر اللہ کے راستے میں نکلتا تھا تو یہ دشمن کی قوت و طاقت سے مسلمانوں کو ڈراتے تھے اور مسلمانوں کی شکست کی جھوٹی افواہیں بھی پھیلاتے تھے ۔ نیز یہاں خواتین بھی اُن کی نظروں سے محفوظ نہیں تھیں، کہ یہ شہوت پرست مسلمان خواتین کو چھیڑتے تھے ([12])۔  ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے دلوں میں روگ ہے، جس کی تفسیر مفسرین نے دل کے شہوانی جذبات و خیالات سے کی ہے،  ان سے حفاظت کے لئے اللہ نے حجاب کا حکم نازل کیا۔ اس لئے مدینہ میں ایسے لوگوں کا برسرِ اقتدار آنا جو جہاد و مجاہدین کے خلاف ہوں، مسلمانوں کے خلاف کفار کے ساتھی ہوں اور پردہ و حجاب کو ختم کرکے مسلمانوں میں جنسی آوارگی اور فحاشی و عریانی  پھیلانے کے درپئے ہوں یہ بھی مدینہ کی ”ویرانی“ ہے۔ آج کے سیکولر حکمران انہی منافقینِ مدینہ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ مدینہ بلکہ حجاز جیسے متبرک مقام کو آل سعود نے انہیں گناہوں سے آلودہ کردیا ہے۔ ایسے گناہوں کا یہاں رواج پانا بھی اس مقدس شہر کی ویرانی ہے۔

سفیانی کے ہاتھوں مدینہ کی ویرانی

مدینہ کی اس ویرانی میں سفیانی نام کی ایک شخصیت کا بھی ہاتھ ہوگا، جس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ حضرت امام مہدی کے ظہور سے پہلے حجاز میں آپ کے انصار سرگرم ہوں گے جو حضرت امام مہدی کی بیعت اور نصرت کے لئے جمع ہوں گے، حجاز کے حکام کو ان سے خطرہ ہوگا۔ اس دوران شاہی خاندان میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، اقتدار کی چپقلش کی وجہ سے باہر کے ملکوں کو مداخلت کا موقع مل جائے گا اور وہ سعودی عرب خصوصا حجاز میں دخل اندازی کریں گے، نیز دجال جو پسِ پردہ حضرت امام مہدی اور آپ کے انصار کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہوگا اپنی کٹھ پتلیوں کو ان کے خلاف میدان میں اتار دے گا، ایسے موقع پر مصر، شام اور حجاز میں سفیانی صفات کے حامل متعدد حاکم سامنے آئیں گے۔

سفیانی ان کے تعاقب میں مدینہ تک فوج بھیجے گا جہاں پر یہ قتل و غارت گری کریں گے، اور مدینہ کی ویرانی کا ذریعہ بنیں گے۔ حضرت امام مہدی کو تلاش کرنے کے لئے جوسات علما حرم مکی میں اکٹھے ہوں گے، وہ جب حضرت مہدی کو پہچانیں گے تو اُن سے بیعت کی درخواست کریں گے لیکن وہ ان کو جل دے کر مدینہ جائیں گے، پھر مکہ آئیں گے، ایسا تین دفعہ ہوگا۔ تیسری دفعہ میں یہ سات علما انہیں حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان جالیں گے اور کہیں گے:

إثمنا عليك و دماءُنا في عنُقِك إن لم تَمُدَّ يدَكَ نُبَايِعكَ، هذا عسكَرُ السفياني قد تَوَجَّهَ في طلبِنَا عليهم رجلٌ من حزم.([13])

”ہمارا گناہ آپ کے ذمے اور ہمارا خون آپ کی گردن پر ہوگا اگر آپ نے  بیعت کرنے کے لئے ہاتھ نہ بڑھایا۔ یہ دیکھیں سفیانی کا لشکر جن کا کمانڈر (قبیلہ) حزم کا آدمی ہے ہماری تلاش میں نکل چکا ہے۔ اس کے بعد حضرت امام مہدی کی بیعت کی جائے گی۔ “

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ:

يُبعَثُ بجيش إلی المدينة فيَأخُذُونَ مَن قَدَرُوا عليه من آل محمدﷺ، و يُقتَل من بني هاشم رجالٌ و نساءٌ، فعند ذلك يَهربُ المهديُّ و المبيّضُ من المدينة إلی مكة فيَبعَثُ في طلبهما و قد لحِقا بحرم الله و أَمنِه.([14])

” مدینہ کی جانب ایک لشکر بھیجا جائے گا  وہ آل محمد ﷺ میں سے مردوں اور عورتوں میں سے جس کو پکڑ سکتے ہوں گرفتار کر لیں گے۔ تب مہدی اور مبیّض (امام مہدی کے ساتھی) مدینہ سے مکہ کی جانب جائیں گے۔ ان کے پیچھے بھی (فوج) بھیجی جائے گی جبکہ یہ لوگ اللہ کے حرم اور امن کی جگہ میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ “

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: تكون بالمدينة وقعةٌ تغرِقُ فيها أحجارُ الزيتِ، ماالحرَّةُ عندها إلّا کضربة سوط، فيُنْتَحیٰ عن المدينة قدر بريدين ثُم يبايَعُ إلی المهدي.([15])

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں ایک ایسا حادثہ ہوگا، جس میں احجار الزیت (مدینہ کا ایک علاقہ) ڈوب جائے گا، حرّہ کا واقعہ بھی اس حادثے کے سامنے کوڑے کے وار کی طرح ہوگا۔ پھر یہ لشکر مدینہ سے دو برید (تقریبا چوبیس میل) کے کے بہ قدر ہٹ جائے گا۔ اس کے بعد مہدی کی بیعت کی جائے گی۔

 سفیانی کو جب حضرت امام مہدی کی بیعت کا علم ہوجائے گا، تب وہ پہلے مدینہ کی جانب لشکر بھیج دے گا جہاں وہ قتل و غارت گری مچائے گا اور تین دن اس کی بے حرمتی کرے گا۔([16]) جس کی وجہ سے مدینہ والے مجبور ہو کریہاں سے نکل جائیں گے۔ 

إن أهل المدينة يخرجون منها بسبب بطش السفياني و أفاعيله.([17])

” اہلِ مدینہ، مدینہ سے سفیانی کی ناگوار حرکتوں کی وجہ سے نکلنے پر مجبور ہوں گے۔ “



([1])  السنن الواردة في الفتن للداني، مسند الإمام أحمد، مسند أبي يعلی.

([2])  ایمان کو سانپ کے ساتھ اور مدینہ کو سانپ کے بل کے ساتھ تشبیہ دینے میں بھی ایک لطیف نکتہ ہے،ایمان کی مومن کی حیات پر ایک عظیم تاثیر رکھتا ہے، یہ مومن کو قوت و استقامت جیسے صفاتِ حمیدہ کے ساتھ متصف کرتا ہے۔ حیوانات کے ماہرین نے سانپ میں یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم کواور اعضائےجسم کو لمبا بنا کر پیدا کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ قوت اور صبر کی صفات رکھتا ہے۔ اگر چہ اس کے پاؤں نہین ہوتے لیکن یہ زمین کے اوپر بسہولت چلتا ہے، اور ایسے قوی عضلات کا مالک ہے کہ اپنے شکار کو مروڑ کر مار دیتا ہے۔ یہی صفت مومن میں پائی جاتی ہے کہ اللہ نے اسے ایمانی قوت نصیب کی ہے، جس کی وجہ سے یہ ناپسندیدہ امور میں برداشت سے کام لے سکتا ہے۔ سانپ میں برداشت اور صبر کی حیران کن حد تک صلاحیت پائی جاتی ہے کہ سردیوں میں یہ مہینوں خوراک سے دور رہ سکتا ہے، اور ایک وقت کا کھانا ایک طویل مدت تک کام دے سکتا ہے۔ اسی طرح مومن روزے کی حالت میں گھنٹوں بھوکا اور پیاسا رہ کر اللہ کے لئے سختی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سانپ کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ انتہائی قوی ہاضمے کا مالک ہے، یہ اپنی جسامت اور قوت کے مطابق ہر قسم کے جانور کو شکار کرکے کھالیتا ہے،  اوراسے ہضم کرسکتا ہے۔ اس کے معدے کی تیزابیت اس کے شکارکو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جانور، پرندے، ہڈیاں، کھال سب اس کے مضبوط ہاضمے میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مومن بھی کسی مخصوص غذا کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ جو کچھ بھی حلال کھانا مل جائے خدا کا دیا فضل سمجھ کر شکر کر کے کھالیتا ہے۔ اسی طرح معنوی غذا (اعمال صالحہ) سے بھی یہ سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں ہے کہ مومن کبھی بھی عمل صالح سے سیر نہیں ہوتا۔ (لا يَشبَعُ المؤمِنُ مِن خَيرٍ يَسمَعُه حتى يكونَ مُنتهَاهُ الجنَّة. رواه ابنُ حبان والحاكم والبيهقي والضّياء المقدسي عن أبي سعيد.)

                سانپ کو قدرت نے قوت احساس سے نوازا ہے۔ یہ اپنے قریب کسی بھی زندہ جسم کی حیوانی حرارت کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی قوتِ حس کی وجہ سے یہ اندھیرے میں بھی چل سکتا ہے،  اس کے سونگھنے کی حس بھی بہت تیز ہے۔

اسی طرح مومن کے دل میں جب ایمان قرار پکڑ لیتا ہے تو اسے ایمانی  احساس کی صلاحیت نصیب ہوتی ہے، اور اپنی فراستِ ایمانی کی بدولت یہ حق و باطل کی تمیز کرسکتا ہے،  نورِ ہدایت کی وجہ سے یہ ظلمتوں اور گمراہیوں سے محفوظ رہتا ہے۔

پھر مدینہ کو سانپ کے بل سے تشبیہ دی ہے کیونکہ سانپ سب سے زیادہ اپنے بل میں محفوظ رہتا ہے، مومن، دجال کے زمانے میں سب سے زیادہ حجاز میں محفوظ رہے گا۔ اور جس طرح سانپ پر حملہ آور دشمن  جب بل میں ہاتھ ڈالتا ہے تو خود شکار ہوجاتا ہے اسی طرح مدینہ مومن کے لئے ایمانی پناہ گاہ ہے جو یہاں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود شکار ہوکرتباہ ہوجاتا ہے۔

([3]) : مسلم

[4]  مسلم

([5])  مسند أحمد، مستدك حاكم َهذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

([6])  رواه الترمذي و قال: هذا حديث حسن غريب.

([7])  رواه ابن ماجة، والحاكم و نعيم بن حماد.

([8])  مسند احمد میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے کہ: ”جس نے مدینہ کا نام یثرب کہا وہ اللہ سے استغفار کرے۔ یہ طابہ (پاکیزہ) ہے، یہ طابہ ہے۔ فتح الباری ج ۴ ص ۱۰۵۔

([9])  الأحزاب ۱۳.

([10])  الأحزاب ۱۴

([11])  الأحزاب ۶۰

([12])  وقيل : كان منهم قوم يرجفون ، وقوم يتبعون النساء للريبة ، وقوم يشككون المسلمين . قال عكرمة وشهر بن حوشب : الذين في قلوبهم مرض يعني الذين في قلوبهم الزنى . وقال طاوس : نزلت هذه الآية في أمر النساء . وقال سلمة بن كهيل : نزلت في أصحاب الفواحش. القرطبي ۷/۱۸۱

[13]  الإشاعة لأشراط الساعة ص ۹۴.

([14])  الفتن رقم: ۹۲۳.

([15])  الفتن رقم: ۹۳۲.

([16])  عن ابن شهاب قال: إذا أتوا المدينة قتلوا أهلها ثلاثة أيام، رواه نعيم في الفتن، رقم ۹۲۸.

([17])  رواه الحاكم في المستدرك. 

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟