امت کا اختلاف اور امام مہدی
امام مہدی سنی ہوں گے یا شیعہ؟ آپ کا تعلق دیوبندی مسلک سے ہوگا یا بریلوی مسلک سےیا آپ اہلِ حدیث ہوں گے؟ امام مہدی دعوت و تبلیغ کے منہج پر چلیں گے یا جہاد کا راستہ اختیار کریں گےیا اخوانی طریقۂ کار اپنائیں گے؟ اور اس سے بھی پہلے یہ طے ہونا ضروری ہے کہ آپ حنفی ہوں گے یا شافعی یا مالکی یا حنبلی؟ یا آپ اپنا اجتہاد کریں گے؟ پونے دو ارب کی اس امت کے بکھرے شیرازے کو آپ کیسے مجتمع کریں گے؟ مسلکوں اور منہجوں کا یہ اختلاف کیونکر ختم ہوسکے گا؟ تنظیموں، پارٹیوں اور جماعتوں کا یہ تعصب کس طرح دور ہوگا؟ جو لوگ آج اپنی جماعت اور مسلک کی وجہ سے فریق مخالف کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہیں ایسے لوگوں کو حضرت امام مہدی کس طرح اکٹھا کرسکیں گے؟
اسلام کے احکام و اصول دو قسم کے ہیں،ایک وہ ہیں جو قطعی اور یقینی ہیں، ان میں باہم کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، جیسے نماز، روزہ و زکوۃاور حج وغیرہ کا فرض ہونا، والدین کی اطاعت، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک، یا سچائی، امانت و دیانت ، اعلیٰ اخلاق ہیں جبکہ جھوٹ، دھوکہ و فریب اور چوری وغیرہ برے اخلاق ہیں، یہ سب اتفاقی دائرے میں آتے ہیں۔ سود، شراب، زنا، قتل و غارت گری، فساد و انتشار، ظلم و زیادتی فطرتِ سلیمہ کے نزدیک بھی برے کام ہیں۔ اور ان کے متعلقہ نصوص بھی ایسے ہیں کہ جن کے فہم و قطعیت پر امت میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔
دوسری طرف دین کے بہت سے امور جیسے عبادات وغیرہ کی تفصیلات ایسی ہیں جن میں باہم بہت اختلاف ہے، اور یہ اختلاف آج سے نہیں بلکہ خلفائے راشدین کے زمانے سے ہے۔ یہ اختلاف نصوص کے فہم یا روایات کے ضعف و صحت کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ فہم امت کے افراد میں مختلف ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خلافت میں امت مجتمع رہی ہے، انتشار کا شکارنہیں ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ زکوۃ کا انکار کرنے والوں کے ساتھ لڑائی کی جائے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کی رائے اس کے برعکس تھی لیکن آپ نے اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ فرمایا اور صحابہ کرام نے آپ کی اطاعت کی کیونکہ ولی الامر کی اطاعت کا حکم خود اللہ نے دیا ہے۔
مسلمانوں میں مذہبی تعصب اور مختلف فرقوں کی ابتدا خلافت کے سقوط سے ہوئی، جب مسلم ممالک کا پورا نظام سیکولر ڈھانچے میں تبدیل ہوگیا۔ مسلمان چونکہ دینی معاملات میں سیکولر ریاست پر اعتماد نہیں کرسکتے تھے، اور دینی امور کا قیام ضروری تھا اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بہت سے مدارس، خانقاہیں اورنجی مذہبی ادارے وجود میں آئے۔ چونکہ ان کے اوپر خلافت کی چھتری نہیں تھی اس لئے ان میں باہمم بہت اختلاف پیدا ہوا اور لوگوں کی کثیر تعداد ان اداروں کے گرد جمع ہوگئی۔ ان میں سے ہر ادارے نے اپنی تئیں لوگوں کو فتنے سے بچانے کے لئے دین کی اپنی تشریحات پر اور دوسروں سے احتیاط کرنے پر ابھارا۔ اسی طرح ان کی جڑیں مضبوط ہوگئیں، اور ہر ادارے اور مسلک کے گرد لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی، پھر رفتہ رفتہ استعماری اثرات کی وجہ سے آپس کا یہ اختلاف ضد اور تعصب میں تبدیل ہوگیا۔ مناظروں، مباحثوں اور مجادلے کا وہ میدان گرم ہوا کہ ہم بھول گئے کہ ہمارے بیچ کوئی اتفاق بھی ہے یا دین سراسر اختلافی مباحث ہی کا نام ہے۔ سیکولرز اس دوران اپنا منصوبہ پورا کرتے رہے اور ہمیں شاید اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ہمیں کس کام کو کتنی توجہ دینی چاہئے تھی۔
سیکولر ریاست نے عربی زبان، قرآن و حدیث، فقہ و اصول اور اسلامی اخلاق کو نصاب سے نکال دیا، جس کی وجہ سے دینی علم کی بنیاد کمزور ہوگئی، اور علم صرف مدارس یا چند اداروں کی چہاردیواری تک محدود ہوگیا۔ دوسری طرف سیکولر ریاستوں نے شریعتِ اسلامی کو نافذ نہیں کیا اس لئے دین محض غیر عملی، علمی مباحث اور فلسفیانہ تحقیقات کا نام رہ گیا، کیونکہ دین کا عملی و ریاستی پالیسی کی سطح پر کوئی استعمال نہیں تھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بطور نظام دین کے فہم میں بہت بڑا زوال آیا، اور یہ سمجھا جانے لگا کہ دین محض چند عبادات و اخلاق کے مجموعے کا نام ہے ، اس چیز نے مختلف مذہبی مسالک کے بیچ میں تعصب کو مزید گہرا کر دیا۔
شیعہ سنی اختلاف
البتہ شیعہ سنی اختلاف ایسا ہے جس نے ابتدائی دور سے ہی جڑیں پکڑ لی تھیں۔ یہ اختلاف سب سے قدیم بھی ہے اور سب سے گہرا بھی۔ اس کے خاتمے کے لئے بہت کوششیں ہوئیں لیکن سب ناکام ثابت ہوئیں۔ وجہ یہ تھی کہ جس چیزپر ان کا جوڑ ہوسکتا تھا اس کا سرا چھوٹ گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت تک امت کی گمراہیوں سے حفاظت کے لئے تین اصول عنایت فرمائے ہیں؛
کتاب اللہ
سنت رسول
اور عترتِ رسول (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہلِ بیت)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو اس کی بھی تسلی دی ہے کہ کتاب اللہ اور عترتِ رسول میں جدائی نہیں ہوگی۔ یعنی اگر عترتِ رسول امت کے امام بنیں، تو یہ کتاب اللہ پر قائم رہیں گے۔ ترمذی شریف نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے؛
إني تاركٌ فيكم ما أن تمسكتم به لن تَضِلُّوا بعدي، أحدهما أعظم من الآخر كتاب الله، حبلٌ ممدودٌ من السماء إلی الأرض، و عترتي أهل بيتي، و لن يفترقا حتی يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما. (الترمذي)
ترجمہ: میں نے تم لوگوں میں ایسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ اگر تم نے اسے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو جاؤ۔ ان میں سے ایک چیز دوسری سے عظیم تر ہے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے جو آسمان سے زمین تک لمبی رسی ہے۔ اور دوسری میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں۔ اور یہ دونوں (کتاب اللہ اور عترت رسول) باہم جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آئیں۔ پس دیکھ لو! کہ میرے بعد ان دونوں کے بارے میں تمہارا عمل کیسا ہوگا؟
حضرت امام مہدی عترتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوں گے بلکہ آپ اہلِ بیت کے امام ہوں گے۔ آپ کی خلافت و امامت کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بنیاد پر ہوگی۔
طبرانی نے الاوسط، حافظ ابونعیم نے صفۃ المہدی میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
يخرج رجل من أهل بيتي، يعمل بسنتي، و ينزل الله له البركة من السماء و تخرج له الأرض بركتها، و تملأ به عدلا، كما ملئت ظلما و جورا، يعمل علی هذه الأمة سبع سنين، و ينزل بيت المقدس.
ترجمہ: ”میرے اہلِ بیت میں سے ایک شخص نکلیں گے جو میری سنت پر عمل کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسمان سے برکت نازل فرمائیں گے۔ اور زمین بھی ان کے لئے برکت والی پیداوار نکالیں گے۔ زمین آپ کے ذریعے عدل و انصاف سے اس طرح بھر دی جائے گی جس طرح وہ ظلم اور گمراہی سے بھری ہوئی تھی۔ اس امت میں سات سال تک حکمرانی کریں گے۔ اور بیت المقدس میں جا کر اتریں گے۔ (یعنی اس کو اپنا دارالخلافہ بنائیں گے۔)“
اس لئے آپ ظلم نہیں کریں گے، عدل کا ایسا نفاذ کریں گے کہ پوری زمین عدل سے بھر دیں گے، اور بدعت کی گمراہی و کج روی کی بجائے سنت کے اعتدال پر امت کو لائیں گے۔
اہل بیت کے امام (امام مہدی) جو کتاب اللہ و سنت پر امت کو چلانے والے ہوں گے، ہر انصاف پسند شخص متفق ہوگا۔ سنی و شیعہ بھی آپ کی امامت و خلافت کے قائل ہوجائیں گے۔ رہ گئے مفاد پرست، نفاق زدہ لوگ تو وہ جس طرح سنیوں میں ہوں گے اسی طرح شیعوں میں بھی ہوسکتے ہیں۔ البتہ آپ کی خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ اس امت کو ایسی شخصیت نصیب فرمائیں گے جو سبھی اسلام پسندوں کو قابلِ قبول ہوں گے۔
خلافت تمام مسلمانوں کی ایک اجتماعی ریاستی قوت کا نام ہے، یہ کسی مخصوص مسلک یا گروہ کا نام نہیں ہے، ملوکیت کے سائے تلے قائم خلافت نے بھی کسی مخصوص فقہ کو نافذ نہیں کیا تھا، اسی وجہ سے جب حضرت امام ابویوسفؒ سے خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ آپ کی تدوین کردہ فقہ کو پورے بلاد اسلامیہ میں نافذ کیا جائے تو آپؒ نے انکار فرمایا۔ حضرت امام مہدی کی خلافت نبوی منہج پر قائم ہوگی، اس لئے آپ کی خلافت بھی ایک وسیع النظر خلافت ہوگی۔
دور صحابہ میں قائم خلافت میں بھی مسلمانوں کے درمیان بے شمار اختلافی امور تھے ان کے باوجود نظام خلافت کبھی بھی انتشار کا شکار نہیں ہوا۔ باوجود ہزار قسم کے اختلافات کے آج سیکولر نظام بھی منہدم نہیں ہوا ہے جو کہ اکثر مسالک و مذہبی اداروں کے نزدیک غیر اسلامی و غیر شرعی ہے۔ تو ایک ایسا نظام کیسے کامیاب نہیں ہوگا جو دین کے ہزاروں احکامات کو نافذ کر رہا ہوگا۔ اس لئے حضرت امام مہدی کے دور میں مسلمان مثالی اتفاق کے ساتھ رہیں گے چاہے ان میں باہم اجتہادی اختلافات ہوں۔ البتہ جو اختلاف حق و باطل کا ہے ان میں امام مہدی حجت ہوں گے اور اللہ ان کے ذریعے حق کو ظاہر فرمائیں گے۔
منہج کا اختلاف
امت میں اس وقت ایک بڑا اختلاف منہج اور طریقۂ کار کا ہے۔ اس وقت چار بڑے اور قابلِ ذکر مناہج موجود ہیں؛
(۱)۔ سلفی حضرات کا جو دین و شریعت کی تعلیم و تعلم بذریعہ صحیح احادیث کو اپنی مشغولیت بنائے ہوئے ہیں۔ ہند و پاکستان وغیرہ کے مدارس بھی تقریبا یہی منہج اپنائے ہوئے ہیں۔
(۲)۔ جہاد و مجاہدین کا منہج؛ عالمِ اسلام کے مختلف خطوں میں کفار سے برسرِ پیکار وہ جماعتیں اور تنظیمیں جن کا مقصد جہاد کے ذریعے امت کا دفاع، مقدسات کی آزادی اور اسلام کا غلبہ و عظمتِ رفتہ کی بحالی ہے۔
(۳)۔ دعوت و تبلیغ کا منہج؛ امت کا ایک قابلِ ذکر طبقہ وہ ہے جو اس وقت تبلیغی جماعت یا اس جیسی دیگر جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہے، یا انفرادی طور پر دعوت و تذکیر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
(۴)۔ سیاسی جماعتوں کی جدوجہد جن میں الاخوان المسلمون، جمعیت علمائے اسلام و دیگر سیاسی جمہوری جماعتیں شامل ہیں (قطع نظر اس سے کہ اسلام میں جمہوریت کا حکم کیا ہے) ان جماعتوں کا مقصود اسلام و شریعت کی تنفیذ ہے اور مختلف ریاستوں میں یہ وہاں کے آئین کے دائرے میں رہ کر کوششیں کر رہی ہیں۔
خلافت (علی منہاج النبوت) بلکہ بعد کے زمانوں میں بھی خلافت ہی جہاد، دعوت، تعلیم اور سیاست کے ان تمام کاموں کی ذمہ دار اور مسئول تھی۔ لیکن خلافت کا سایہ سر سے ہٹنے کے بعد اب ہر فریضے کے لئے بے شمار جماعتیں، ،تنظیمیں، ادارے اور افراد کام کر رہے ہیں، لیکن مسئلہ حل ہوکر نہیں دے رہا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسئلے کی جڑ کہاں ہے اور یہ کیسے حل ہوگا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خلافت ہی ان تمام مناہج کی جامع ہوگی اور وہ ہر کام کو اس کے مناسب جگہ پر رکھے گی۔ خلافت صرف جہاد کا نام نہیں، نہ صرف دعوت اور نہ صرف سیاست یا علم کی سرگرمی کا نام ہے۔ بلکہ وہ ان تمام امور کو اکٹھا کر کے چلے گی۔ جس طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں یہ تمام کام خلافت کے سائے تلے بخیر و خوبی ہورہے تھے۔ اسی طرح حضرت امام مہدی کے زمانۂ خلافت میں بھی یہ امت یہ تمام کام اعلی پیمانے پر ہوں گے اور ان کے حقیقی ثمرات امت کو ملیں گے۔ علم کی برکت سے امت دین سے آشنا ہوگی۔ دعوت کی کوششوں سے مسلمان اسلام کے قریب آئیں گے۔ جہاد کے ذریعے غلبہ اور بالادستی ملے گی اور شرعی سیاست کے ذریعے امت کی مصلحت کی رعایت ہوگی۔
آخر میں یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ اسلام کے قطعی احکامات میں مجموعی طور پر کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہے، خصوصا وہ امور جن کا تعلق ریاست سے ہے ایسے معاملات میں امت میں جذباتی اختلافات نہیں ہیں۔ جیسے خراج و عشر، زکوۃ، سود و شراب کی حرمت، ریاست کا ایک ہونا، خلیفہ کی اطاعت، اس کی ذمہ داریاں، بنیادی ضروریات کا پورا کرنا، کفار کے ساتھ فوجی تعاون کی ممانعت، IMF اور ورلڈ بینک جیسے استعماری اداروں سے قرضہ لینے کی ممانعت، اقوام متحدہ جیسے طاغوتی طاقت کا رکنیت نہ لینا، غیر شرعی ٹیکس لینے کی ممانعت، زمینوں سے متعلق اصلاحات، حدود و قصاص کا نفاذ، اقامتِ صلوۃ، پردہ اور اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق ریاست کے نظمِ اجتماعی کے ساتھ ہے، بنیادی طور پر ان کی ذمہ داری خلیفہ پر ہے، اور ان میں مسلم فرقوں کے بیچ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دوسری جانب عبادات اور بعض فروعی مسائل میں جو اختلاف ہے تو اس اختلاف کا امت کی وحدت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے نہ وہ امت کی وحدت کے لئے نقصان دہ ہے۔ نہ ہی ریاست کے امور پر اس کا کوئی اثر پڑتا ہے، اس لئے اس قسم کے اختلافات کے باقی رہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ:
أبشركم بالمهدي يبعث على اختلاف من الناس وزلازل, فيملأ الأرض قسطاً وعدلاً كما ملئت جوراً وظلماً, يرضى عنه ساكن السماء وساكن الأرض, يقسم المال صحاحاً. فقال له رجل: ما صحاحاً؟ قال: بالسوية بين الناس، قال: ويملأ الله قلوب أمة محمد صلى الله عليه وسلم غنى، ويسعهم عدله. (مسند أحمد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں مہدی کے آنے کی بشارت دیتا ہوں، جو تب تشریف لائیں گے جب امت میں اختلافات اور زلزلے کثرت سے ہوں گے، وہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیں گے جیسا کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی تھی۔ آپ سے آسمان اور زمین کے رہنے والے دونوں خوش ہوں گے۔ آپ مال کو امت کے افراد میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کریں گے۔ اللہ محمد ﷺ کی امت کے دلوں کو غنی (مالداری) سے بھر دیں گے، اور اللہ کا عدل و انصاف ان کے لئے وسعت پیدا کرے گا۔
حضرت امام مہدی سے پہلے امت میں شدید اختلافات ہوں گے، یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق لوگ ایک دوسرے کے منہ پر تھوکیں گے۔ لیکن آپ کے ظہور و قیامِ خلافت کے بعد اللہ امت کو آپ پر مجتمع فرمائیں گے۔ ظاہری و باطنی خیر کے دروازے کھل جائیں گے۔ اور خلافت راشدہ کی یاد تازہ ہوجائے گی۔
Comments
Post a Comment