ظہور مہدی اکابر کی تصانیف میں

 

رسول اللہ ﷺ دینِ اسلام کو جس شکل و صورت اور جس حالت میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، آپ کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین نے دین کو اسی شکل میں برقرار رکھا۔ اور اسی وجہ سے انہیں آپ کے خلفا کہا جاتا ہے،  کہ وہ دین کو قائم رکھنے میں آپ کے جانشین تھے۔ خلفائے راشدین کے بعد دینی سیاسی اور معاشرتی و اخلاقی نظام میں آہستہ آہستہ کمزوری آتی گئی اور ایک ایک کر کے اسلامی احکام عملی زندگی سے رخصت ہوتے گئے۔ اجتماعی نظم اسلام سے دور ہوتا گیا،اور اس کی وہ اصلی حالت باقی نہیں رہی جس پر اسے حضور اکرم ﷺ نے چھوڑا تھا۔ اس دور کو حدیث میں خلافت علی منہاج النبوت کہا گیا۔

خلافت کے بعد نظام شورائیت سے نکل کر بادشاہت کے طرز و طریقے پر استوار ہو گیا، اور بنو امیہ، بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ کے خلفا اسی نظم کے مطابق چلتے رہے۔ اگر چہ وہ دین کو قائم رکھنے والے تھے، فیصلے احکامِ شریعت کی روشنی میں کئے جاتے، جہاد کا فریضہ باقی تھا ۔ اور اسی وجہ سے یہ نظام بھی نظامِ خلات کہلاتا ہے،   مجموعی طور پر یہ امن و خوشحالی کا دور تھا، احادیث میں یہ دور الملک العاض کے نام سے موسوم ہے، یعنی ایسی بادشاہت جسے بادشاہوں نے دانتوں سے مضبوط پکڑے رکھا ہو۔

1924 میں رہی سہی خلافت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور امت جبر و ظلم کے دور میں داخل ہوگئی، استعمار نے جسدِ واحد کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا، زبان و قومیت کے نام پر الگ الگ ملک بنوائے گئے، اور ان پر مغرب کے کٹھ پتلی لوگوں کو حکمران بنایا گیا، جنہوں نے اپنے عوام کو انگریز کے ظالمانہ نظام کے شکنجے میں کس کر دبایا اور انہیں اسلامی نظام کی برکتوں سے محروم رکھا۔ حدیث میں اس دورو کو جبر کا دور قرار دیا گیا۔

یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ہر صدی میں ایک مجدد پیدا ہوگا کہ جب بھی دین و شریعت پر مرورِ زمانہ سے گرد و غبار کے اثرات پڑیں گے، اور رسوم و رواج مسلمانوں کو ان کے نبی کی سنت سے دور کردیں گے تو اللہ تعالیٰ ایسی کوئی شخصیت پیدا کریں گے جو دین کی تجدید کا کام کرے گی، یعنی اسے ایک بار پھر تازہ صورت اور خالص شکل میں سامنے لائے گی۔ تاریخ اسلام میں ہمیشہ ایسی شخصیات پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے دین اسلام کی اصلی صورت پیش کی ہے، اور امت پر حجت قائم کی ہے۔ مجددین نے دین اسلام کی ہر شاخ میں تجدیدی کام کیا ہے۔ کم سے کم علمی انداز میں ضرور الدین الخالص کی وہ صورت پیش کی ہے جو نبی اکرم ﷺ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مبارک دور کی یاد دلاتی تھی۔ بعض مجددین کو اقتدار نصیب ہوا تو بہت سارے ایسے تھے جو اقتدار کے بغیر ہی دین کی تجدید کا کام کر گئے۔

نبی اکرم ﷺ نے آخر زمانے میں ایک بار پھر منہج نبوت پر خلافت قائم ہوجانے کی خوشخبری سنائی ہے۔ یہ خلافت اہلِ بیت کے امام حضرت امام مہدی محمد بن عبد اللہ کے ہاتھوں قائم ہوگی جب ظلم و جبر سے زمین بھری ہوئی ہوگی تو اللہ تعالیٰ آپ کو خلافت کے لئے ظاہر فرمائیں گے، اور آپ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ اس خلافت کو نبوت والی خلافت کہا  گیا ہے اس لئے کہ آپ دین کو اصل شکل میں زندہ فرمائیں گے، اور دین تمام ادیان پر غالب آجائے گا، تمام عالم اسلام آپ کی خلافت میں داخل ہوجائے گا اور امن و سلامتی سے زمین آباد ہوجائے گی۔

حضرت امام مہدی وہ شخصیت ہیں جن کی تفصیلات خود احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، اور ہر زمانے میں اہلِ علم نے ان پر کام کیا ہے، برصغیر پاک و ہند میں اکابر علمائے دیوبند نے بھی اس موضوع پر قابلِ قدر کام کیا ہے، بالخصوص ایسے ماحول میں جب مرزا غلام احمد قادیانی جیسے لوگ ہندوستان کے عوام کو یہ دھوکہ دے رہا تھا کہ میں ہی ”مہدی موعود“ ہوں، تب اہلِ علم نے روایات و آثار کی روشنی  میں حضرت امام مہدی کی جملہ تفصیلات سامنے رکھیں اور یہ بتایا کہ مرزا قادیانی مہدی نہیں ہیں، مہدی ہونے کے لئے اپنے شرائط ہیں، نیز اس دور کی اپنی نشانیاں ہیں جن کی تطبیق اِس زمانے پر نہیں ہوسکتی۔

آج جبکہ مرزا قادیانی کو آنجہانی ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، امت کے سر سے خلافت کا سایہ ختم ہوچکا ہے، 57 اسلامی ملکوں پر مغرب کے مقرر کردہ ایسے لوگ مسلط ہیں جن کے نام تو مسلمانوں والے ہیں لیکن دل و دماغ سے وہ انگریز ہیں، مغرب کے ساتھ مل کر عالم اسلام کی زمینوں کو ظلم و جبر سے بھر چکے ہیں۔ جزیرۃ العرب میں عیسائی صلیبی افواج دندنا رہی ہیں، سفیانی صفت رکھنے والے سفاک حکمرانوں کا ظہور ہوچکا ہے، اور امت بس اسی انتظار میں ہے کہ یمن کی جانب سے کشادگی کی وہ فرحت بخش ہوا چلے جسے رسول اللہ ﷺ نے محسوس فرمایا تھا، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے اِس دور کے بارے میں کی گئی خوشخبری تھی جس کے پورا ہونے میں شاید کچھ زیادہ عرصہ باقی نہیں رہا ، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت امام مہدی کے متعلق جملہ علامات سامنے لائی جائیں تاکہ امت کی تسلی کا سامان ہو، کسی جھوٹے مدعی مہدویت کے جال میں پھنسنے سے حفاظت ہو اور مہدویت کے موضوع پر کام کرنے والوں کو بھی مواد ملے۔

مردان کے خطے سے تعلق رکھنے والے، جامعہ دارالعلوم کراچی کے ہونہار فاضل حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی ثناء اللہ صاحب مد ظلہ کو اللہ پاک نے مہدویات میں وسیع درک اور بصیرت سے نوازا ہے، اس سے پہلے بھی ان کی متعدد تصنیفات اسی موضوع کے متعلق سامنے آچکی ہیں، اکابر علمائے دیوبند کی تحریرات کی روشنی میں حضرت امام مہدی سے متعلقہ مباحث پر یہ ایک نئی کاوش ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو شرفِ قبولیت سے نوازے، مفتی صاحب کے علم و عمل میں برکات نصیب فرمائے اور مزید ترقیات سے نوازے۔

زین العابدین پشاور

۶ محرم الحرام ۱۴۴۳ ھ

Comments

Popular posts from this blog

کیا شیخ اسامہ ہی الحارث بن حرّاث ہیں؟